آسیان ممالک نے کیا دنیا کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ !

8سال لمبی بات چیت اور غور خوض کے بعد چین سمیت آسیان ممالک کے ممبران نے اتوار کے روز دنیا کے سب سے بڑے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کر دئیے ۔ایشیا کے کئی ملکوں کو امید ہے کہ اس معاہدے سے کورونا وبا کی مار سے تیزی سے بہار نکلنے میں مدد ملے گی علاقائی پائیدار اقتصادی ساجھیداری (آر سی ای پی )پر جنوبی مشرق ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کی سالانہ چوٹی کانفرنس کے ورچول طریقہ سے دستخط کئے گئے ۔آسیان کے دس ملکوں کے علاوہ چین ،آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ ،جاپان ،ساو¿تھ کوریا شامل ہیں ۔سمجھوتہ میں شریک ملکوں کی کل آبادی 2.1عرب ہے ۔دنیا کی کل جی ڈی پی کا آر سی ای پی حصہ داری 30فیصدی ہے ۔جو دنیا کے سب سے بڑے تجارتی معاہدہ ہے ۔حالانکہ اس میں چین کا دبدبہ ہے ۔آسیان کے انڈیونیشیا ،ملیشیا ،فلپائن ،سنگاپور،تھائی لینڈ ،برنئی،ویتنام ،میانماروغیرہ شامل ہیں ۔بھارت اس سمجھوتہ میں شامل نہیں ہے ۔حکام کا کہنا ہے بھارت سے پھر سے شامل ہونے کے امکانات کھلے ہیں ۔بھارت ایک مبصر ممبر کے طور پر اس میں حصہ لے سکتا ہے ۔بھارت ہی آر سی ای پی کی بنیاد رکھنے والے 16ملکوں میں شامل تھا لیکن پچھلے سال بھارت نے اس سے خود کو الگ کر لیا اس کی وجہ بھارت نے تجارتی گھاٹہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ آر سی ای پی میں شامل ہونے کا مطلب ہے بھارت کے بازاروں میں چینی چیزوں کی بھرمار اس سے اس کی اندرونی معیشت پر برا اثر پڑتا ۔میزبان دیش ویتنام کے وزیراعظم گوئین جوان کک نے کہا یہ دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ ہے اس سے خطہ میں ایک نئے تجارت کا ایک اسٹکچر بنے گا ۔تجارت آسان ہو سکے گی کووڈ 19-سے متاثر سپلائی کو پھر سے بنائے رکھا جا سکے گا ۔اس تجارتی معاہدے میں امریکہ شامل نہیں ہے کیوں کہ چین اس کی قیادت کررہا ہے اس لحاظ سے زیادہ تر اقتصادی تجزیہ نگار اس خطہ میں چین کے بڑھتے اثر کے طورپر دیکھ رہے ہیں اگر معاہدہ یورپی یونین اور امریکہ -میکسیکو ،کناڈا تجارتی معاہدے سے بھی بڑی بتائی جارہی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟