900برس چرچ ،500سال مسجد پھر میوزم ©...پھر مسجد !

ترکی میں چھٹی صدی کی تاریخی عمارت ہاگیہ اسٹوفیاکو عدالت نے پھر سے مسجد بھال کرنے کا فیصلہ دیا ہے اس کے بعد ترکی کے صدر طیب اردگان نے اسٹوفیا کو مسجد کی حیثیت میں کھولنے کا اعلان بھی کردیا اور بین الاقوامی وارننگ کو در کنار کردیا گیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کی 1500برس پرانی عمارت کی پہچان میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے ہاگیہ صوفیا 900برس تک گرجا گھر کی حیثیت میں جانی گئی اس کے 500برس بعد تک وہ مسجد کی شکل اور پھر میوزم کی حیثیت میں جانی گئی اور پھر اس عمارت کا تنازع عدالت کے دروازے تک پہونچا تو عمارت کو امریکہ اور اسرائیلیوں کے احتجاج کے باوجود مسجد قرار دے دیا گیا عدالت کا کہنا تھا کہ جدید ترکی میں عمارت کو میوزم کی حیثیت میں غیر قانونی طور پر بدلا گیا تھا ©یونسکو کی بین الاقوامی وراثت میں شامل اس تاریخی عمارت کو سب سے زیادہ لوگ دیکھنے آتے ہیں ۔قاہرہ نے عدالت کے فیصلے کو مھذب دنیا کو اکسانے والا فیصلہ قرار دیا ہے وہیں روس کے ایک بڑے چرچ نے کہا کہ عدالت نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور اس فیصلے سے مشرق سے لیکر مغرب تک حالات خراب ہو سکتے ہیں ترکی کے صدر اردگان نے پچھلے سال صدارتی چناو¿ میں ا س چرچ کو مسجد میں بدلنے کا اعلان کیا تھا ترکی کا ہاگیہ صوفی یمن دنیا کے سب سے بڑے گرزہ گھروں میں سے ایک رہا ہے اسے چھٹی صدی میں مہا راجہ بائی زیٹائن کے حکم سے بنوایا گیا تھا اسکے بعد اسے دوبارہ مسجد میں بدلا گیا جب عثمانیہ سلطنت نے 1543قسطنطنیہ (جسے بعد میں استنبول کا نام دیا گیا ) شہر پر قبضہ کیا گیا تو اس چرچ کو مسجد بنا دیا گیا استنبول میں بنا یہ چرچ ایک نقاصی کا انوکھا نمونہ مانا جاتا ہے جس نے دنیا بھر میں بڑی عمارتوں کے ڈیزائن پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے دور حاضر میںترکی کے اسلام نواز پارٹی اسے مسجد بنانے کی مانگ کو لیکر کافی عرصے سے جد وجہد کرتی رہی ہے ۔جبکہ سیکولر بنیادپر بٹی ہوئی ہے ۔اور چرچ کو مسجد بنانے کی مخالفت کر رہی ہے ۔قاہرہ ،امریکہ نے چرچ کو مسجد بنانے کی مخالفت کی ہے ۔امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ اس عمارت کی پوزیشن میںتبدیلی ٹھیک نہیں ہوگی کیونکہ یہ معاملہ الگ الگ مذہبی عقیدتوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتارہا ہے ۔صدر اردغان نے ترکی کی سیاست میں اسلام کو کھینچ کر قومی دھارا میں لانا چاہتے تھے ۔جس کیلئے 17سال سے وہ لگے تھے وہ طویل عرصے سے اس چھٹی صدی کے گرجا گھر کو مسجد کا درجہ واپس دلانے کی جد و جہد کررہے تھے جسے جدید سیکولر ترکی کے ابتدائی دنوں کے حکمراں مصطفی کمال عطاءترک نے 1934میں اسے میوزیم میںبدلاتھا ۔لیکن اب یہ پھر مسجد کی شکل میں بحال کردی گئی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟