روم جل رہا ہے اور نیروچین کی نیند سو رہے ہیں!

پہلے کرناٹک میں سرکار گئی پھر مدھیہ پردیش میں اب راجستھا ن کی کانگریس سرکار پر سنکٹ کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔چھتیس گڑھ کا قلعہ بھی بہت محفوظ نہیں ہے ۔آخر کیا وجہ ےہ کہ سوا سو سال پرانی کانگریس کسی بھی ریاست میں ایک دو برس سے زیادہ اقتدار میں رہنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے ۔ہر جگہ ان کے اپنے ممبران اسمبلی کی بغاوت ہی اس کے لئے مشکل کا سبب بن رہی ہے ۔اس کے بڑی وجہ یہ ہے کہ کانگریس میں اب کوئی سنکٹ موچک نہیں بچا اور پارٹی صدر سونیا گاندھی اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں راہل گاندھی صر ف ٹوئٹر پر سرگرم ہیں کم و بیش یہی حال پرینکاکا بھی ہے ان تینوں کے علاوہ پارٹی میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو مشکل گھڑی میں راہ نکال سکے ۔اشوک گہلوت ،دگ وجے سنگھ ،کملناتھ ،جیسے نیتاو¿ں کے مقابلے تنظیم کے جنرل سکریٹری کیسی وینو گوپال ان سے زیادہ جونئیر ہیں ان کی آواز نا کار خانہ میں توتی کے برابر ہے ۔زیادہ تر سینئیر لیڈرون کو پہلے ہی کنارے لگا دیاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد ایک کانگریس کے قلعے ڈھتے جارہے ہیں ۔اور گاندھی پریوار صرف خاموش تماشائی بننے پر مجبور ہے اس کے چلتے جہاں کانگریس کئی ریاستوں میں اقتدار کھو چکی ہے وہیں دوسری طرف اس کے چلتے کئی جگہ اقتدار میں آتے آتے رہ گئی لیکن کانگریس سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے ۔حالیہ تصوریر راجستھان کی ہے یہاں کملناتھ سرکار پر خطرہ منڈلارہا ہے اور گہلوت کی کرسی ہلتی نظرآرہی ہے ۔پارٹی کا ایک گروپ ناراض ہو کر ایک طرف بیٹھا ہوا جیسے چار مہینے میں مدھیہ پردیش میں تصویر سامنے آئی تھی اب راجستھان میں ڈپتی سی ایم و ریاستی کانگریس صدر سچن پائلٹ نارا ض بتائے جا رہے ہیں ۔کانگریس اپنے یہاں جو اتھل پتھل ہے اس کے لئے بی جے پی کو ذمہ دار قراردیتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ کانگریس کی لیڈر شپ اپنے یہاں کی بالا دستی کی لڑائی اور گروپ بندی پر قابو پانے پر ناکام نظرآرہی ہے ۔راجستھان میں وزیر اعلیٰ اور ڈپٹی سی ایم کے درمیان آپسی گروپ بندی اور تلخی کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔پائلٹ کے پردیش صدر بننے کے بعد سے دونوں میں اقتدار کی جنگ اور اپنی بالا دستی کی لڑائی لڑ رہی ہے ۔بھلے ہی اسمبلی چناو¿ کے دوران کافی کانگریس صدر راہل گاندھی کے چلتے دونوںمیں آپسی اختلافات بھلا کر کام کرنے کی بات کہی ہے لیکن حقیقت یہی رہی کہ دونوں کے درمیان دوریاں کم نہیں ہوئی اور ریاست میںہونے والے بلدیاتی اداروں کے چناو¿ کے پیش نظر بھی پائلٹ کو لگ رہا ہے کہ پارٹی صدر ہونے کے باوجود فیصلے کہیں اور سے ہوں گے ۔وہیں پارٹی کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ پائلٹ کی محنت اور لگن کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔یہ بھی افواہ ہے کہ سارا جھگڑا پائلٹ کو ریاستی صدر کے عہدے سے ہٹانے کی مہم سے شرو ع ہوا ۔روم جل رہا ہے اور نیرو چین کی نین سورہے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟