ایک ساتھ تین پڑوسیوں نے مورچہ کھولا!

دیش کی تاریخ میں ممکنہ طورپر یہ پہلا موقع ہے جب ایک ساتھ تین پڑوسی ملکوں کے ساتھ کشیدگی جاری ہے۔ پاکستان کے ساتھ کنٹرول لائن پر مسلسل کشیدہ صورتحال بنی ہوئی ہے اور تین مہینے سے بلاوجہ پاکستان کی طرف سے کسی نہ کسی کشمیر کے سیکٹر میں گولہ باری کی جارہی ہے وہیں چین کے ساتھ لداخ سے لے کر سکم تک لمبی سرحد پر کئی سیکٹر پر دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ لیپولیکھ، کالاپانی کے ساتھ سرحدی تنازعہ نے صرف شدت اختیار کرلی ہے بلکہ جمعہ کو نیپالی فوجی دستے ساری روایت کو بالائے طاق رکھ کر سیتا مڑھی سرحد پر ہندوستانی پر فائرنگ کردی جس میں ایک ہندوستانی کی موت ہوگئی اور دو دیگر زخمی ہوگئے۔ نقشہ تنازعہ کے دوران بدھوار کو نیپال کی فوج کی چیف اس کالا پانی علاقے میں پہنچے جسے بھارت اور نیپال دونوں اپنا مانتے ہیں۔ نیپالی آرمی چیف پورن چند تھاپا کالا پانی سے13کلومیٹر دور مشرق کی طرف گئے اور اس کے ساتھ وہاں بارڈر سیکورٹی دیکھ رہے مسلح فورس کے چیف بھی تھے۔ نیپالی مسلح نگراں فورس سے پھانگرو میں 13مئی کو نئی چوکی بنائی ہے۔ واقف کاروں کی مانیں تو ہندوستانی ڈپلومیسی کا سخت امتحان ہے جب اسے اپنے تین پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ الگ الگ سطح پر غوروخوض کرنا پڑرہا ہے۔ ہندوستانی حکمت عملی سازوں کے مطابق چین کے ساتھ خونی جھگڑا ہونا کئی معنی میں باعث تشویش ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی فوج کو اب پاکستان سے لگے مشرقی پاکستان کی طرف اب چین کے ساتھ ایل اے سی کو لے کر بھی زیادہ چوکس رہنا ہوگا۔ گلوان خطے میں آخری مرتبہ خونی جھڑپ 1975میں ہوئی تھی۔ چینی فورس نے چھپ کر ہندوستانی فورس پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت آسام رائفلز کے چار جوان شہید ہوئے تھے۔ دوسری طرف نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کے ساتھ لگی چینی سرحد پر سال 1967کے بعد سے کوئی خونی جھڑپ نہیں ہوئی ہے۔ چین جس طرح سے پورے مغربی سیکٹر میں جارحیت پھیلارہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہندوستانی فوج کے حکمت عملی سازوں کو زیادہ سرگرم پلاننگ کرنی ہوگی۔ ایک ساتھ تین محاذوں پر ہندوستانی فوج کا لڑنا آسان نہیں ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟