15جون کی جھڑپوں کی اصلی کہانی ایک نہیں تین مرتبہ جھڑپیں!

لداخ کی گلوان وادی میں اس ماہ کی 15جون کو ہوئی خونی جھڑپ پر ایک مشہور ہندی اخبار نوبھارت ٹائمزکی نامہ نگار پونم کی ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق 15جون کی جھڑپ لگاتار 6-7گھنٹے تک چلی بلکہ اس دوران تین جھڑپیں ہوئیں، پہلی جھڑپ میں ہندوستانی فوجیوں اور چین کے فوجیوں کی زیادہ تر ہاتھاپائی ہوئی، دوسری جھڑپ میں چینی فوجیوں نے خاردار راڈ کا بھی استعمال کیا۔ تیسری جھڑپ میں ہندوستانی فوج نے کنٹرول لائن پار جاکر اپنے شہید سی اواور جوانوں کا بدلہ لیا۔ جھڑپ میں دونوں طرف کے فوجی نیچے ندی میں گرے اور چین کا ایک کمانڈنگ افسرسمیت کچھ فوجی بھی ہندوستانی فوج کے قبضے میں تھے۔ بتادیں کہ مرکزی شاہراہ وٹرانسپورٹ وزیر اور جنرل وی کے سنگھ نے اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہاتھا کہ 15جون کی خونی جھڑپ میں ہمارے 20فوجی شہیدہوئے، چین کے بھی ہم سے دوگنا فوجیوں کی موت ہوئی۔ ہندوستانی فوج کی جانب سے یرغمال بنائے گئے چینی کمانڈروفوجیوں کو جمعرات کی شام اس وقت چھوڑا گیا جب چین نے اپنے قبضے میں 10ہندوستانی فوجیوں کو چھوڑا۔ یعنی فوجیوں کا آپس میں تبادلہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق 15جون کی شام کو قریب شام7بجے کرنل سنتوش بابو اور ان کے ساتھ 35-40فوجی گلوان وادی میں گشت پوائنٹ 14پر پہنچے دیکھا کہ چینی فوجیوں کا ایک ٹینٹ وہاں پر لگا ہوا ہے جبکہ بات چیت کے حساب سے اسے ہٹایا جانا چاہئے تھا۔ جب ٹینٹ ہٹانے کو کہاگیا تو چینی فوجیوں نے حملہ کردیا۔ اس کے بعد ہاتھا پائی پتھربازی بھی ہوئی اس میں ہندوستانی فوجی چینی فوجیوں پر بھاری پڑے۔ کچھ دیر کے بعد یہ جھڑپ رکی۔ اس کے بعد ہندوستانی فوج کی دوسری ٹیم بھی وہاں بلالی گئی کیونکہ اس کا اندیشہ تھا کہ چینی فوجی کچھ بھی حرکت کرسکتے ہیں۔ اس درمیان چین کے فوجیوں کی ایک بڑی ٹیم آگئی، پھر شروع ہوئی دوسری جھڑپ، اس جھڑپ میں سی او کرنل سنتوش کمار بابو سمیت کچھ جوان نیچے ندی میں جاگرے اور چین کے کافی تعداد میں فوجی زخمی ہوئی۔ دوسری جھڑپ جب رکی تو بھارت اور چین دونوں نے اپنے فوجیوں کی تلاش شروع کردی۔ کچھ فوجی زخمی تھے جنہیں نکالاگیا۔ سی او سنتوش بابو کی باڈی دیکھ کر پلٹن بوکھلا گئی۔ اب یہ جھڑپ ہی نہیں تھی بلکہ پلٹن کے لئے وجود کا سوال تھا۔ اپنے سی او کے شہید ہونے کی خبر سن کر پلٹن نے بغیر وقت گنوائے چینی فوجیوں سے بدلہ لینے کی ٹھان لی اور پھر بہار ریجمنٹ کی 16ویں بٹالین کے کمانڈر کی قیادت میں جوان نکل پڑے۔ چینی فوجیوں سے ان کے علاقے میں جاکر بدلہ لینے کا اپنا خواب پورا کیا۔ بہار ریجمنٹ کے فوجیوں نے اور فیلڈ ریجمنٹ کے بندوقچی نے کنٹرول لائن پار کی اور چینی فوجیوں پر ٹوٹ پڑے۔ ہندوستانی فوجیوں کی چینی فوجیوں پر یہ اسٹرائک آدھی رات کے بعد ہوئی۔ اس میں بھی دونوں طرف کے کئی فوجی ندی میں گرے۔ ہندوستانی فوج کے 10فوجی جہاں چین کے قبضے میں تھے، وہیں چینی فوج کے ایک کمانڈنگ افسر کے ساتھ کچھ جوان ہندوستانی فوج کے قبضے میں تھے جنہیں جمعرات کی شام چھوڑاگیا۔ فوج کے ایک افسر نے بتایا کہ یہ ایک دوسرے کے فوجیوں کو بندی بنائے جانے والا معاملہ نہیں تھا دونوں کے کچھ فوجی ایک دوسرے کے علاقے میں تھے کچھ تو اسی رات واپس بھیج دیئے گئے جبکہ باقی کو بعد میں بھیجا گیا۔ سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے بتایا کہ چین کے فوجی بھی ہمارے پاس تھے۔ لیکن وہ قیدی بنانے جیسی حالت نہیں تھی۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے فوجی لوٹا دیئے اور انہوں نے بتایا کہ 1962میں چین نے اپنے مرنے والے فوجیوں کی تعداد نہیں بتائی تھی۔ بےشک چین سچائی چھپاتا رہے لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ اس مرتبہ ہندوستانی فوج نے چین کے دانت کھٹے کردیئے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے۔ 2020کا بھارت 1962کا بھارت نہیں ہے۔ جے جوان، جے ہند۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟