اظہار رائے کی آزادی کا اصول ہے صحافت کی آزادی

سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ صحافت کی آزادی آئین میں دیئے گئے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا اخلاقی اختیار اصل بنیاد ہے۔ بڑی عدالت نے یہ بھی کہاکہ بھارت کی آزادی اس وقت تک محفوظ ہے جب تک اقتدار کے سامنے صحافی کسی بدلے کی کارروائی کا خوف مانے بنا اپنی بات کہہ سکتا ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندر چور، جسٹس ایم آرشاہ کی بینچ نے یہ سخت رائے زنی ریپبلک ٹی وی کے مدیر ارنب گوسوامی کے معاملے میں کہی۔ اس نے کہا ایک صحافی کے خلاف ایک ہی واقعہ کے سلسلے میں بہت سے مجرمانہ مقدمے دائر نہیں کئے جاسکتے۔ اسے کئی ریاستوں میں راحت کے لئے چکر لگانے کے لئے مجبور کرنا صحافت کی آزادی کا گلا گھونٹنا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت عارضی راحت دی جب عدالت نے پال گھر میں دو سادھوؤں اور تین تین افراد کے ذریعے پیٹ پیٹ کر قتل کے واقعہ سے متعلق پروگرام کے سلسلے میں ناگپور میں درج ایف آئی آر کے علاوہ باقی سبھی جگہ معاملے منسوخ کردیئے لیکن اس کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے سے انکار کردیا۔ ناگپور میں درج ایف آئی آر  ممبئی میں منتقل کردی گئی۔ جس کی جانچ ممبئی پولیس کررہی تھی۔ عدالت کی بینچ نے 56صفحات کے فیصلے میں کہاکہ یہ ایف آئی آر منسوخ کرانے کے لئے ارنب گوسوامی کو نوڈل عدالت کے پاس جانا ہوگا۔ حالانکہ بینچ نے گوسوامی کو کسی طرح کی سزا سے متعلق تین ہفتے کی سرپرستی فراہم کردی ہے۔ جسٹس چور نے فیصلے میں کہادفعہ 19 (ایک) (اے) کے تحت صحافیوں کو بولنے واظہار رائے کی آزادی کے لئے ملے حق اعلیٰ سطح کے ہیں۔ لیکن یہ لامحدود نہیں۔ اس نے کہا میڈیا کو بھی مناسب پابندیوں کے دائرے میں رہ کر ہی جواب دہ ہیں۔ بینچ نے کہا حالانکہ ایک پترکار کے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی بالاتر پائیدان پر نہیں ہیں۔ لیکن بطور سماعت ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے پہلے کا وجود دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر میڈیا کو ایک نظریہ اپنانے کے لئے مجبور کیاگیا تو شہریوں کی آزادی کا وجود نہیں بچے گا۔
 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟