لاک ڈاؤن۔4

کورونا مریضوں کی بڑھتی تعداد اور انفیکشن پھیلنے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے مرکزی سرکار کی جانب سے لاک ڈاؤن۔4 پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ مہاراشٹر، تامل ناڈو، پنجاب جیسی اہم ترین ریاستوں میں جب اپنے یہاں لاک ڈاؤن کو 31مئی تک کے لئے بڑھادیا تب مرکزی حکومت کے لئے لاک ڈاؤن بڑھانے کا اعلان محض خانہ پری رہ گیا تھا۔ اس چوتھے لاک ڈاؤن کنٹین منٹ زون کو چھوڑ کر باقی علاقوں میں سبھی طرح کی اقتصادی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حالانکہ مال، سنیما ہال، ریسٹورنٹ، ہوٹل، میٹرو، ریل اور ہوائی خدمات پر پابندی پہلے کی طرح جاری رہے گی۔ اس مرتبہ ریڈ، اورنج اور گرین زون کی تشریح وہی رہے گی۔ لیکن اس کے تحت آنے والے علاقے کو طے کرنے کی ذمے داری ریاستوں کو سونپ دی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے کے لئے جاری گائیڈ لائنز میں وزارت داخلہ نے صاف کردیا ہے کہ خاص طورپر ممنوعہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر دیگر سرگرمیوں کو چھوٹ ہوگی۔ آمد ورفت کو آسان کرنے کا وقت کا مطالبہ تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر کاروباری، مالیاتی کاموں کو طاقت ملنے والی نہیں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر معیشت کا نقصان بڑھنے کے ساتھ ساتھ روزی روٹی کا مسئلہ بھی پریشان کن ہوتا جارہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دیش کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں مزدور اپنے گاؤں لوٹ رہے ہیں۔ سڑکوں پر دم توڑ رہے ہیں۔ ان کو گھر پہنچانے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہے۔ لیکن ٹریفک پابندی پر اس میں رکاوٹ آرہی ہے۔ لاک ڈاؤن۔4میں ریل، ہوائی سفر پر لگی پابندی نہیں ہٹی ہے۔ ہم اس کے پیچھے کئی وجوہات سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں چوکس رہنا ہوگاتاکہ کورونا انفیکشن زیادہ نہ پھیلے جس طرح لاکھوں مزدور سڑکوں پر ٹرکوںا ور ٹیمپو سے جارہے تھے اس سے جسمانی دوری کی تعمیل نہیں ہورہی تھی۔ اس سے ممکن ہے کہ کورونا کا انفیکشن شرح ابھی اور بڑھے۔ آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کے فائدے نقصان پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ دنیا کے سامنے دوطرح کے ماڈل ہیں۔ ایک لاک ڈاؤن کا جس سے سختی سے کامیاب بناکر چین نے کووڈ۔19کو قابو کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف ساؤتھ کوریا کا ماڈل ہے جہاں صرف کنٹین منٹ زون میں لاک ڈاؤن رکھ کر اقتصادی سرگرمیوں کو نہیں روکا گیا ہے۔ سخت لاک ڈاؤن سے جہاں چین کی جی ڈی پی میں اس سال کی پہلی سہ ماہی میں 30فیصد سے زیادہ گراوٹ ہوئی ہے وہیں اس میعاد میں ساؤتھ کوریا میں یہ گراوٹ کل 6فیصد بھی نہیں ہے، جہاں ایک طرف بھارت کا سوال ہے ہم نے تو چین جیسے سخت مزاج کے ہیں اور نہ ہی ہمارے یہاں کوریا جتنی کم آبادی ہے۔ بھارت میں لاک ڈاؤن کھولنے والے حمایتی بھی جانتے ہیں کہ اس کے کھلتے ہی انفیکشن بڑھنے کا خطرہ ہے۔ بھارت کی وسیع آبادی کو آپ پوری طرح سے کنٹرول کرنا بے حد مشکل ہے۔ بلکہ ناممکن نہیں ہے۔ انفیکشن پر قابو رکھنے کے ساتھ لاپرواہ لوگوں کو بھی خبردار رکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ جو صنعتیں چل رہی ہیں انہیں اپنی پیداوار ریاست اور دیش کے مفاد میں بڑھانی ہوگی۔ اس ماحول کی تعمیر میں عام لوگوں کی بھی اہمیت ہوگی۔ انہیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے میں چھوٹ کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اور وہ سبھی احتیاط برتیں جو ڈاکٹروں نے بتائی ہیں۔ ایسا نہیں ہوا تو سرکار کو پھر سے سختی کرنی پڑے گی۔
 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟