گھر لوٹ رہے مزدوروں کی موت کا ذمہ دار کون؟

اپنے گھروں کو لوٹ رہے مزدوروں کے ساتھ روزانہ حادثے ہورہے ہیں اب تک 139مزدوروں کی موت ہوچکی ہے۔ مختلف حادثوںمیں یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ تازہ حادثہ اترپردیش کے اوریا میں ڈی سی ایم اور ٹرک کی ٹکر کی شکل میں ہوا ۔ جس میں اب تک 26پرواسی مزدوروں کی موت ہوچکی ہے۔ ادھر مدھیہ پردیش کے ساگر میں ٹرک پلٹنے سے 8مزدوروں کی جان چلی گئی۔ اوریا میں حادثہ کتنا خطرناک تھا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ ہائی وے پر ڈی سی ایم گاڑی کھڑی تھی تبھی ٹرک ڈرائیور چائے پینے کے لئے رکا تھا، تبھی ٹرک نے ٹکر ماردی۔ بنگال کے باشندے گڈو نے بتایا کہ کھانے کی پریشانی ہونے لگی تھی تبھی مزدوروں نے گھر لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ صبح شاید تین بجے طے ہوا کہ آگے جو ڈھابہ ملے گا وہاں رک کر روٹیاں لے لیں گے ، کچھ ڈھابے پر اترے باقی لوگ ڈی سی ایم منی ٹرک میں سوئے ہوئے تھے تبھی سے پیچھے سے ایک زور دار ٹکر ماری گئی۔ گاڑی میں سے اچھل کر دور جاگرے۔ کچھ اس کے نیچے دب گئے لوگ مدد کے لئے چلا رہے تھے لیکن رات کے اندھیرے میں کوئی سننے والا نہیں تھا۔ ڈھابہ پر محفوظ لوگوں کو باہر نکال رہے تھے۔ ڈی جی پی نے بتایا کہ جانچ میں ٹرولا کے ڈرائیور کے نیند میں آنے سے حادثہ ہوگیا۔ پولیس کے مطابق اگر صبح ہونے سے پہلے وہ جاگ جاتے تو زندگی اور موت کے بیچ فاصلہ کم ہوتا اور مزدوروں کی واپسی کے لئے مناسب انتظامات بھی ہوتے۔ اس خطرناک حادثے میں ان کی جان بچ سکتی تھی۔ قاعدے سے تو مرکز اور ریاستی حکومتوں کو تبھی ہوشیار ہوجانا چاہئے تھا جب مہاراشٹر میں ٹرین کی پٹریوں پر سورہے مزدور مال گاڑی سے کٹ مرے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا ، محض خانہ پری کی ہمدردی جتاکر مالی مدد دینے کا اعلان ہوگیا ۔ نتیجہ یہ ہوا مزدوروں کے پیدل یا سائیکل سے جانے کا معاملہ تیز ہوگیا جو شرمک ٹرینیں چل رہی ہیں وہ ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ یہ صاف ہے کہ مزدور اپنے گھر لوٹنا چاہ رہے ہیں لیکن حکومت ٹرینوں کی سہولت نہیں دے پارہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو پیدل جانے والے مجبورمزدوروں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی ٹھیک ڈھنگ سے گھر بھیجنے کا انتظام کیاجارہا ہے بلکہ ان پر سرکاریں لاٹھیاں برسارہی ہیں۔ چاہے مرکزی سرکار ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں کوئی بہتر انتظام نہیں ہے۔ آج پورے دیش کی سڑکوں پر لاکھوں مزدور گھروں کو پیدل چل پڑے ہیں ۔ ریاستوں کو اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا اور تال میل قائم ہو تاکہ اس قسم کے حادثے سے بچا جاسکے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟