کب تک لاک ڈاو ¿ن جاری رکھا جائے؟

21دنوں کا لاک ڈاو ¿ن جیسے جیسے اپنے آخری مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے سرکار کی مشکل بھی بڑھ رہی ہے کہ 21دن کے بعد یہ لاک ڈاو ¿ن جاری رکھیں یاجزوی لاک ڈاو ¿ن جاری رکھیں ۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںمیں سبھی پارٹیوں کے نتیاو ¿ں کے ساتھ جو میٹنگ کی اور اس سے پہلے کووڈ19-پر بنے وزارتی گروپ کی میٹنگ ہوئی تو اس میںکئی تجاویز ملیں ۔وزارتی گروپ نے اسکول کالج شاپنگ مال اور مذہبی عبادت گاہیں مئی تک بند رکھنے کی سفارش کی ہے ۔ذرائع کے مطابق وزارتی گروپ کی رائے ہے کہ لاک ڈاو ¿ن 14اپریل سے آگے نا بڑھنے کی صورت میں بھی یہ سرگرمیاں بند رہنی چاہیے ۔ساتھ ہی مندر مساجد مال جیسے مقامات پر جمع ہونے والی بھیڑ کو ڈرون سے دیکھا جانا چاہیے ۔سرکار کے سامنے اب یہ سوال ہے کہ لاک ڈاو ¿ن کا کیا کیاجائے ؟اسے ایسے ہی کچھ وقت کے لیے جاری رہنے دیا جائے یا کچھ حد تک ختم کر دیا جائے ۔ابھی حالت یہ ہے ہر دن کے ساتھ کورونا مریضوں کی تعداد میں پانچ سو یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے ۔لیکن دوسری طرف لاک ڈاو ¿ن کے سبب ساری کاروباری و صنعتیں بند ہیں ۔جس سے دیش اندر ہی اندر ایک ایسے بحران کو تقویت پہونچ رہی ہے جس آگے چل کر خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ان کے علاوہ تیسرا فیکٹر یہ ہے خود ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی لاک ڈاو ¿ن کو کورونا سے لڑنے کا مناسب طریقہ نہیں مانا۔وزیر اعظم نریندر مودی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سبھی ریاستوں کے وزرائے اعلی ٰ سے اس مسئلے پر بات چیت کر چکے ہیں جس میں طے ہوا کہ ضلع انتظامیہ کی رپورٹ کی بنیاد پر لاک ڈاو ¿ن ہٹانے کا پلان بھیجا جائے ۔سبھی ریاستیں مرکز کو اپنی رپورٹ بھیجیں گے اسی بنیادپر مرکزی سرکار اپنا فیصلہ لے گی ۔ایسے مشکل میں ایک بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ بڑے فیصلوںمیںسیاسی عام رائے بنائی جائے ۔لاک ڈاو ¿ن جلد بازی میںلاگو کرنا پڑاتھا اس وقت ایسی رائے بنانے کا وقت نہیں تھا ۔جس کی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں چھوٹ گئیں جن کی وجہ سے سرکار کی نکتہ چینی ہوئی لیکن اب جب چند روز کاوقت باقی ہے تب سرکار سب کی صلاح پر توجہ دے رہی ہے ۔چھوٹی موٹی چیزوںکوچھوڑ دیں تو اس مشکل وقت میں تمام اپوزیشن پارٹیاں سرکار کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہیں جیسا ابھی لگ رہا ہے کہ پوری دیش میں ایک ساتھ لاک ڈاو ¿ن ختم نہیں ہوگا ۔سرکار کاپلان ہے جن جگہوں پر کورونا کے مریض زیادہ پائے گئے ہیں اور وہاں انفکشن کی تعداد کی بناد پر ریاستوں کو زمرے میں بانٹا جائے گا ۔اسی حساب سے الگ الگ ریاستوں یا پھر اضلاع میں لاک ڈاو ¿ن ہٹانے اور مختلف خدمات شروع کرنے کے بارے میں سوچا جائےگا ۔ان میں زیادہ کورونا سے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاو ¿ن میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائےگی ۔لیکن جن ریاستوںمیں پچھلے سات آٹھ دن سے کوروناکا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا وہاں راحت مل سکتی ہے ۔سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ جوں جوں لاک ڈاو ¿ن کی میعاد بڑھے گی وہیں سماج کے کمزور طبقوں کی مشکلیں بڑھیں گی ۔ابھی تو یہ طبقہ کسی طرح اپنی زندگی گزر بسر کررہا ہے لیکن آخر کب تک وہ بے روزگار بیٹھا رہے گا ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟