زندگی نہیں موت کی رسمیں بھی بدلیں!

کورونا نے صرف زندگی جینے کے طریقے بدل دیے ہیں بلکہ موت کی آخری رسوم کے طریقے اور رسمیں بھی بدل دیے ہیں ۔دیش میں کورونا سے بھلے ہی موتیں ہوئی ہوں لیکن دوسری بیماریاں شوگر ،ہارٹ اٹیک ،گردے فیل ہونا سے قدرتی موت جاری ہے ۔اگر اب نا ارتھی چار کندھوں پر شمشان تک جا سکتی ہے ۔اور نا چتا کے آس پاس اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کی بھیڑ جمع ہوتی ہے اور ناہی دوسری رسموں کے لیے محفلیں بلائی جاتی ہیں اور نا ہی تیرہویں ہوتی ہے ۔کورونانے موت کے بعد ہونے والے تمام طریقے بدل ڈالے ہیں دکھ سے متعلق پیغامات میں بھی ان دنوں ایک لائن بہت عام ہوگئی ہے کہ لاک ڈاو ¿ن کی وجہ سے مرحوم آتما کی سانتی کے لیے گھر سے ہی پرارتھنا یا دعا یامغفرت کریں ۔سبھی غم زدہ پیغامات میں یہی درخواست ہوتی ہے ۔رشتہ دار اپنے گھر سے شردھان جلی موبائل مسج کے ذریعے بھیج دیتے ہیں ۔ایسا کرنے کے پیغام سے اتنا صاف ہے کہ رسمیں نبھانے سے زیادہ ضروری زندگی ہے اگر کسی کی موت کورونا انفکشن سے ہوئی ہو اسے قبرستان میں دفنانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے ۔آخری رسوم سے جڑے نریندر جوکی بتاتے ہیں کہ لوگ کریا کرم کو لیکر بے حد حساس ہیں اورکئی بار سمجھانے کے بعد بھی وہ مانتے ہیں کہ لاک ڈاو ¿ن کے چلتے استھیوں کا وسرجن مشکل میں پڑ رہا ہے ۔حال ہی میں اپنی بیوی کوکھونے والے ایک شخص راجندر سنگھ بتاتے ہیں کہ ان نے پتینی کی استھیاں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں لاک ڈاو ¿ن کھلنے کے بعد گنگا میں بہا دیںگے ۔اسی طرح چرچ اور سبھی میں اسی کی تعمیل ہورہی ہے ۔کورونا کے چلتے مردہ افرادکو اپنے چار رشتےداروں اور دوستوںکا کاندھا بھی نہیں ملرہا ہے اور غمزدہ خاندان تعزیتی جلسوں کے ذریعے ویڈیو اکانفرنسنگ کر رہے ہیں ۔اور اس میں آن لائن ایپ کی مدد لی جارہی ہے ۔دہلی میںزیر تعلیم ایک لڑکی جو لاک ڈاو ¿ن میں پھنسی تھی اس کو اس کے پتا کے آخری دیدار موبائل پر کروائے گئے اورناجانے ایسے کتنے لوگ ہیں جو لاک ڈاو ¿ن کے چلتے متوفی افراد کی آخری رسوم نہیں ادا کر پارہے ہیں ۔چونکہ جو چلاگیا وہ لوٹ کر آنے والا نہیں ہے لیکن دوسروں کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالی جا سکتی ۔وبا کے چلتے مذہبی رسم ورواج کے قاعدے طے کیے گئے ہیں ان کے مطابق انتم سنسکار میں بیس سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکتے ۔لاش کو شمشان تک گاڑی میںلے جانا ہوتا ہے انتم یاترا کی اجازت نہیں ہے جو جائیں اپنے ماسک و سینی ٹائزر ساتھ لے جا رہے ہیں ۔موکش دھام کے ملازم بھی دوری بنائے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟