گاجے باجے پر چناﺅ رن میں اترے پیدل ٹھاکرے

جمعرات کا دن شیو سینا کے لئے جشن کا دن تھا ۔مہاراشٹر میں ٹھاکرے پریوار کے کسی ممبر کے ذریعے چناﺅ نہ لڑنے کی روایت کو توڑتے ہوئے شیو سینا چیف ادھو ٹھاکرے کے بیٹے اور پارٹی کی نوجوان برانچ کے چیف آدتیہ ٹھاکرے نے اپنی نامزدگی داخل کی ۔کسی بڑے نیتا کے بیٹے یا بیٹی کا چناﺅ لڑنا اب حیرت میں نہیں ڈالتا،کیونکہ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا رہا ہے ۔لیکن شیو سینا کے ٹھاکرے خاندان کے کسی شخص یعنی آدتیہ ٹھاکرے کا ورلی اسمبلی حلقہ سے پرچہ داخل کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جسے صرف ونش واد نہیں کہا جا سکتا ۔ٹھاکرے خاندان کے کسی ممبر کا چناﺅ ی سیاست میں اترنا شیو سینا کی نئی حکمت عملی کی کہانی کہتاہے ۔بال ٹھاکرے نے شیو سینا کو مراٹھی مانوش کے ایک آندولن کی طرح کھڑا کیا تھا اور وہ چاہے سے اقتدار کی سیاست میں لے گئے ،لیکن خود کو اس سے الگ ہی رکھا ۔ورلی سیٹ سے چناﺅ لڑنے کے لئے نامزدگی سے پہلے آدتیہ ٹھاکرے نے روڈ شو کیا ۔روڈ شو کے دوران شیو سینا کے ورکر کافی جوش میں تھے ۔جگہ جگہ پھول برسا کر آدتیہ ٹھاکرے کا استقبال کیا گیا ۔جہاں سیاسی طور سے شیو سینا نے اپنی طاقت دکھائی تو وہیں اپنی پارٹنر بھاجپا کو بھی چنوتی دی ۔مراٹھی مانوش کی اسمیتا کو لے کر پارٹی بنانے والے بال ٹھاکرے نے تین دہائی پہلے پہلی بار بھاجپا کے ساتھ گٹھ بندھن کیا تھا اور اس وقت سے دونوں پارٹیوں کے درمیان غیر اعلان شدہ سمجھوتہ سا تھا ، جس میں شیو سینا کو بڑے بھائی کے کردار کی حیثیت حاصل تھی ۔لہذا جب اس گٹھ بندھن کو پہلی بار سرکار بنانے کا موقع ملا ،تب مکھیہ منتر ی کا عہدہ بھی شیو سینا کے پاس چلا گیا ۔ٹھاکرے کو یہ کہنے سے کبھی گریز نہیں رہا کہ وہی ریموٹ کنٹرول سے راجیہ کی سیاست اور سرکار چلاتے ہیں ۔ان کے انتقال کے بعد اس ریموٹ کنٹرول کی پکڑ ڈھیلی پڑنے لگی اور بچی کھچی کسر گذشتہ اسمبلی چناﺅ میں پوری ہو گئی جب اس نے اکیلے چناﺅ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔حالانکہ اس سے پہلے 2009میں جب بھاجپا نے شیو سینا سے کم سیٹوں پر لڑ کر مہاراشٹراسمبلی چناﺅ میں اس سے دو سیٹیں زیادہ جیتی تھیں تبھی گٹھ بندھن سمیکرن گڑ بنانے لگے تھے ۔بے شک بالا صاحب پر ریموٹ کنٹرول سے سرکار چلانے کے الزامات لگتے رہے لیکن انہوں نے اپنا کردار ایسے نیتا کا بنایا جو اقتدار سیدھے اپنے ہاتھ میں لینے کے لالچ سے دور ہو ۔ اتنا ہی نہیں ،انہوںنے اپنے خاندان کے کسی دیگر ممبر کو بھی چناﺅ لڑنے نہیں دیا ۔ان کے بعد ادھو ٹھاکرے کا اثر بھلے ہی اپنے پتا جیسا نہ ہو لیکن ہو بھی چناﺅ نہ لڑنے کی پرمپرا نبھاتے رہے ۔اب جب کہ ادھو ٹھاکرے نے ہی اپنے بیٹے کو چناﺅ لڑا کر یہ پرمپرا توڑ دی ہے تو یہ سوال اُٹھنا حقیقی ہے کہ شیو سینا کو ایسی کیا ضرورت آپڑی تھی ؟اس سے بھی اہم ہے کہ شیو سینا آدتیہ ٹھاکرے کو ممکنہ وزیر اعلیٰ کی شکل میں پیش کر رہا ہے ۔ادھر دیوندر فڑنویس بھاجپا کے وزیر اعلیٰ کی پہلی پسند رہے ہیں ۔کیا شیو سینا اور بھاجپا میں دراڑ پڑنے کے امکانات نہیں ہیں ؟ادھو ٹھاکرے کا داﺅں تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب شیو سینا بھاجپا سے زیادہ سیٹیں جیتے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟