کشمیر میں 66ویں دن بھی عام زندگی بدستور ٹھپ

جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آٹیکل 370کے زیادہ تر تقاضوں کو منسوخ کرنے اور جموں کشمیر و لداخ کو مرکزی حکمراں ریاست بنانے کے بعد سے صوبے میں حالات ابھی تک پٹری پر نہیں لوٹ پائے ہیں ۔مرکزی سرکار کے پانچ اگست کے اس فیصلے کے بعد سے ہی کشمیر لاک ڈاﺅن کی حالت میں ہے ۔جموں و کشمیر کے بڑے بازار بند رہنے اور پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بسوں ،گاڑیوں کے سڑکوں سے ندارت رہنے کی وجہ سے 66ویں دن بھی عام زندگی ٹھپ ہے ۔اور حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ۔کشمیر میں عائد پابندیاں بستور جاری ہیں ریاست کے زیادہ تر حصوں میں موبائل سروس اور سبھی انٹر نیٹ سرویسز پانچ اگست سے ہی معتطل ہیں ۔سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ ،عمر عبداللہ ،محبوبہ مفتی سمیت کئی بڑے لیڈر اب بھی نظر بند ہیں ۔امریکہ کی ایک پارلیمانی کمیٹی ،اور غیر ملکی امور سے متعلق کمیٹی نے پیر کے روز دورہ کر کے اپنے ٹوئٹ میں بتایا کہ کشمیر میں کمیو نیکیشن پر پابندیوں کی وجہ سے کشمیر یوں کی زندگی اور بہبودی پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے ٹوئٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ بھارت یہ پابندیاں ہٹائے اور کشمیریوں کو بھی وہی حقوق اور سہولیات دی جائیں جو دیگر ہندوستانیوں کوحاصل ہی ۔ہندوستانی نزاد امریکی ایم پی پریملا جے پال سمیت چودہ امریکی ممبران پارلیمنٹ نے ایک ماہ پہلے وزیرا عظم نریندر مودی سے کشمیر میں انسانی حقوق کے حالات پر پیدا ہو رہی تشویشات کو دور کرنے اور کمیو نی کیشن سروسز کو بحال کرنے کی درخواست کی تھی ۔بہرحال ایک مہینے بعد امریکہ کی ہاﺅس آف فارن افئیرس کمیٹی کا یہ بیان آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ سمیت باقی دنیا کو کشمیر میں جاری پابندیوں پر اعتراض ہونا شروع ہو گیا ہے اس سے دنیا میں مودی سرکار کی ساکھ خراب ہو رہی ہے ۔بے شک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ابھی تک دنیا بھر سے وہ ہمایت نہیں ملی جس کی ان کو امید تھی لیکن پانچ اگست سے ہی کشمیر میں چلی آرہی پابندیوں پراب دنیا کی رائے بدل رہی ہے جو سوال پوچھا جا رہا وہ یہ ہے کہ آخر کب یہ لاک ڈاﺅن جاری رہے گا؟کسی نہ کسی دن تو اسے اُٹھانا ہی پڑے گا اسے ختم کرنے سے کشمیر میں کیا حالات بنتے ہیں یہ سبھی کے لئے باعث تشویش بنا ہوا ہے ۔ہاﺅ س آف فارن افیر س کمیٹی کے ایشیائی و نیوکلیائی عدم توسیع سب کمیٹی 22اکتوبر کو کشمیر اور ساﺅتھ ایشیا ءکے دیگر حصوں میں انسانی حقوق کے معاملوں پر سماعت کرئے گی ۔جموں وکشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے لے کر دس سال تک کے 144بچوں کو پولس کے ذریعہ گرفتار کیا گیا تھا جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی اطفال انصاف کمیٹی یعنی جیو نائل جسٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ میں اپنی پیش رپورٹ میں کہا کہ کشمیر میں 144بچوں کو گرفتا ر کیا گیا ۔حالانکہ انہوںنے اس بات سے انکار کیا کہ انہیں ناجائز طریقہ سے اُٹھایا گیا ۔یہ رپورٹ جے کے ہائی کورٹ کی جیو نائل جسٹس کمیٹی ریاستی پولس اور یونی فائٹ اطفال تحفظ خدمات سے حاصل پینل کے اعداد و شمار پر مبنی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟