نہ میں کسی کی بوا ، نہ کوئی میرا بھتیجہ

بہن جی طویل عرصہ کے بعد لکھنؤ میں اپنی رہائش گاہ پہنچیں۔ اس کے بعد ہی بہن جی نے دھماکہ کردیا۔ مایاوتی نے اپنے نئے بنگلہ کے لئے بھاجپا کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا نہ وہ مجھے پھنساتے اور نہ ہی میرے پاس بنگلہ آتا۔ دھماکہ کرتے ہوئے بہن جی نے کہا کہ ان کی پارٹی اتحاد کے خلاف نہیں ہے لیکن اتحاد میں سنمان جنک سیٹیں ملنے پر ہی اتحاد ہوسکتا ہے۔ اس طرح انہوں نے دو ٹوک کہہ دیا کہ ان کی پارٹی قابل قبول سیٹیں ملنے پر ہی چناؤ سے پہلے بننے والے کسی گٹھ بندھن کا حصہ بنے گی۔ کانگریس کی قیادت میں کچھ اپوزیشن پارٹیاں آنے والے لوک سبھا اور پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے لئے بھاجپا کے خلاف مہا گٹھ بندھن بنانے کی کوششیں کررہی ہیں۔ جہاں اس بیان سے بی جے پی نے تھوڑا راحت کی سانس لی ہوگی وہیں بہوجن سماج کے اس بدلے رخ نے کانگریس کی دھڑکن ضرور بڑھا دی ہوگی۔ مایاوتی نے ایک تیر سے کئی وار کئے اور کہا نہ میں کسی کی بوا ہوں اور نہ کوئی میرا بھتیجہ بات صرف احترام کی ہے۔ جو ہمارا احترام کرے گا، ہم اس کا احترام کریں گے۔ کانگریس حکمت عملی ساز مانتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں بھاجپا کو ہرانے کے لئے بسپا کا ساتھ ضروری ہے اس لئے پردیش کانگریس صدر کملناتھ نے بسپا کے ساتھ تال میل کو لے کر تبادلہ خیالات بھی شروع کردئے تھے لیکن مایاوتی کے موجودہ رخ سے کانگریس حیران ہے۔ بسپا کے مدھیہ پردیش میں چار ممبر اسمبلی ہیں۔2013 کے چناؤ میں پارٹی کو ساڑھے چھ فیصدی ووٹ ملا تھا کیونکہ بھاجپا مجوزہ گٹھ بندھن سے پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے وزیر اعظم اور بھاجپا دونوں کے نشانے پر اپوزیشن گٹھ بندھن ہے۔ وزیر اعظم مہا گٹھ بندھن کو لیڈر شپ کا پتہ نہیں پالیسی واضح نہیں اور یقینی کرپشن کے طور پرتشریح کررہے ہیں تو بھاجپا صدر امت شاہ اسے ڈھکوسلہ بتا رہے ہیں۔ لوک سبھا کی80 سیٹوں والے اترپردیش کا سیاسی تجزیہ بتاتا ہے کہ اگر بسپا اور سپا ایک ساتھ مل کر چناؤ میدان میں اترتی ہیں تو بھاجپا کا یہاں پتا صاف ہوسکتا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ دہلی کے تاج کا راستہ اترپردیش سے ہوکر ہی جاتا ہے۔ بھاجپا اگر یوپی میں پچھڑتی ہے تو لگاتار دوسری بار لوک سبھا کا چناؤ جیتنے کا اس کا سپنا پورا نہیں ہوپائے گا۔مایاوتی تجربہ کار سیاسداں ہیں جو اتحاد کے حق میں تو ہیں لیکن بارگنگ کرنے کے لئے اکھلیش یادو پر دباؤ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ لوک سبھا میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں اس لئے چاہتی ہیں تاکہ اگر موقعہ ملے تو دہلی کے تاج پر گدی نشیں ہوسکیں۔ لوک سبھا میں معلق پوزیشن میں وزیر اعظم کے عہدہ کے لئے اپنا دعوی مضبوط کرسکیں۔ حالانکہ انہیں بھی بھیم آرمی کے نام سے تیزی سے ابھرتی دلت طاقت کا بھی ڈر کہیں نہ کہیں ستا رہا ہوگا۔ بھاجپا کو روکنے کے لئے سپا۔ بسپا دونوں سیٹوں کے بٹوارے پر نرم رخ رکھتی ہیں تو مہا گٹھ بندھن ٹھوس شکل لے سکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟