جہیز قانون میں ترمیم !سارے پاور پھر دہلی پولیس کے پاس

سپریم کورٹ نے بدھوار کو اپنے ہی ایک فیصلہ کو پلٹتے ہوئے جہیز ٹارچر روکنے کے لئے بنی آئی پی سی کی دفعہ 498A کے تحت سیدھی گرفتاری کا اختیار برقرار رکھا ہے۔ جہیز ٹارچر کے معاملوں میں پتی اور اس کے پریوار والوں کو جو تحفظ ملا ہوا تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جہیز قانون کا بیجا استعمال روکنے کیلئے پچھلے برس جاری گائڈ لائنس میں ترمیم کرتے ہوئے جہیز ٹارچر کی شکایتوں کی جانچ کے لئے فیملی ویلفیئر کمیٹی تشکیل کرنے اور اس کمیٹی کی رپورٹ آنے تک گرفتاری کرنے کی ہدایت منسوخ کردی تھی۔ یعنی اب اگر پولیس کو گرفتاری کی درکار بنیاد لگتی ہے تو وہ ملزم کو گرفتار کر سکتی ہے۔ اپنے ہی فیصلہ کو پلٹتے ہوئے سپریم کورٹ نے گرفتاری کا حق پولیس کو دیکر اپنی حدود کی تشریح کردی ہے۔اب پولیس ہی فیصلہ کرے گی کہ شکایت صحیح ہے یا نہیں؟ ایک سال پہلے 2017 کے جولائی میں جسٹس اے کے گوئل اور جسٹس یو یو للت نے یہ مانتے ہوئے کہ جہیز کی فرضی شکایتیں بہت آرہی ہیں اور اس کی وجہ خاندان کے بوڑھوں اور رشتے داروں کوبھی پریشان کیا جاتا ہے اور گرفتار کیا جاتا ہے، فیصلہ دیا تھا کہ اب جہیز کی شکایت آنے پر ایک ویلفیئر کمیٹی جانچ کرے گی اور جانچ کرنے والی کمیٹی کے نتیجوں پر پولیس گرفتار کرے گی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا، اے ایم خان ولکراور ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے تازہ فیصلہ ’نیائے فار‘ نامی این جی او کی عرضی پر دیا ہے۔ بنچ نے بھلے ہی جہیز ٹارچر کے معاملہ میں سیدھے گرفتاری کی سہولت کو پھر سے نافذ کردیا ہو لیکن عدالت عظمیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی مانا کہ جہیز ٹارچر قانون کا بیجا استعمال ہوتا ہے۔ پتہ نہیں یہ حال میں آئے ایس سی ایس ٹی قانون کے بعد کا اثر ہے یا پھر مہلا حقوق انجمنوں کا لیکن عدالت انسانی حقوق کا حوالہ دیکر ان قوانین کو کمزور کرنے سے بچتی نظر آرہی ہے جنہیں سماجی انصاف کے لئے بنایا گیا ہے۔ شاید عدالت کو یہ احساس ہورہا ہے کہ سماجی انصاف کی ضرورت اور اس کے حق میں کھڑی تحریکیں اور اس کے فیصلے کی تنقید اور احتجاج کرسکتی ہیں اس لئے یہ معاملہ آئین سازیہ کے پالے میں ہی ڈالنا مناسب ہے۔ حالانکہ عدالت نے یہ کہا ہے کہ جہیز قانون کا بیجا استعمال روکنے کے لئے آئی پی سی کی دفعہ 41A اور پیشگی ضمانت کی رعایت پہلے سے موجود ہے اس فیصلے کے تحت اب جہیز کی شکایت کی سچائی جانچنے والی فیملی ویلفیئر کمیٹیوں کی مداخلت ختم ہوجائے گی۔ یہ پولیس ہی فیصلہ کرے گی کہ شکایت صحیح ہے یا غلط؟ پولیس کے اس حق کا پہلے بھی بیجا استعمال ہونے کا خطرہ تھا تبھی تو فیصلہ بدلا گیا تھا۔ اب پھر سے یہ حق پولیس کے پاس آگیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟