کانگریس گوا میں کرناٹک جیسا داؤں چلنے کی فراخ میں

گوا کے وزیر اعلی منوہر پریکر کے مسلسل بیمار رہنے اور بار بار ہسپتال میں بھرتی ہونے کے چلتے ریاست میں سیاسی اتھل پتھل تیز ہوگئی ہے۔ ریاست میں بھاجپا کی اتحادی پارٹیوں نے بھی سی ایم بدلنے کی مانگ کی ہے جس وجہ سے عدم استحکام کے حالات بن گئے ہیں۔ اس موقعہ کا فائدہ اٹھانے کے لئے کانگریس نے پیر کو ہلچل تیز کردی۔ اس کے 16 میں سے14 ممبر سرکار بنانے کا دعوی پیش کرنے راج بھون گئے۔ حالانکہ گورنر مردلا سنہا سے ان کی ملاقات نہیں ہوسکی کیونکہ وہ شہر (پنجی) سے باہر ہیں۔ اس کے بعد ممبران اسمبلی سرکار بنانے کا میمورنڈم حکام کو سونپ کر لوٹ آئے۔ کانگریسی ممبران اسمبلی نے الزام لگایا کہ وزیر اعلی پریکر سمیت تین وزیر بیمار ہیں۔ سرکار ندارد ہے ،کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں سرکار بنانے کے لئے ہمیں مدعو کیا جانا چاہئے۔ ہمارے پاس این سی پی ممبر اسمبلی سمیت 17 ممبران کی حمایت ہے اور اکثریت ثابت کردیں گے۔ 40 نفری ممبر اسمبلی میں کانگریس کے16 جبکہ این سی پی کا1 ممبر ہے۔ دوسری طرف حکمراں اتحاد کی پوزیشن یوں ہے بی جے پی 14، مہاراشٹر گومنتک پارٹی (این جی پی) 3، گوا فارورڈ پارٹی 3 اور آزاد 3 ہیں۔ گوا میں کانگریس کے سرکار بنانے کے دعوی کے بعد بی جے پی حرکت میں آگئی ہے۔ اسے اندیشہ ہے کانگریس کرناٹک والا داؤ گوا میں اگر کھیلتی ہے تو اسے دقت ہوسکتی ہے۔ اہم یہ ہے کہ گوا میں سی ایم پریکر کی جگہ کس اور کو وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ ابھی بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہے۔ ایسے میں بی جے پی اس کوشش میں ہے کہ بھلے ہی پریکر ہسپتال میں ہوں لیکن وزیر اعلی بدلنے کے لئے جلد بازی نہ کی جائے۔ اگر بدلنا ہی پڑے تو پہلے ساتھیوں کو اس کے لئے تیار کیا جائے۔ اس وقت بی جے پی سرکار کے اکثریت میں ہونے کی وجہ 3-3 ممبران والی پارٹیوں کے علاوہ 3 آزاد ممبران ہیں۔ پارٹی کو لگ رہا ہے بیمار پریکر کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلی بنایا جاتا ہے تو پارٹی کے اندر اسمبلی بھنگ کرنے کے امکانات پر غور ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے کانگریس کے داؤ سے اب گورنر کے لئے بھی کانگریس کو موقعہ دئے بغیر اسمبلی بھنگ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ حالانکہ بی جے پی نیتاؤں کا کہنا ہے کہ گوا میں سرکار کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن جس طرح سے پارٹی نیتاؤں کے گوا میں جو دورہ شروع ہوئے ہیں اس سے اشارے ملنے لگے ہیں کہ خود بی جے پی وہاں کے حالات کو لیکر مطمئن نہیں ہے۔ پارٹی کرناٹک میں کانگریس کے کھیل کو بھول نہیں سکتی۔ اسے یہ بھی ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں کانگریس بی جے پی سے ہاتھ ملائی پارٹیوں میں سے کسی کو وزیر اعلی عہدہ کی پیشکش نہ کردے۔ اگر ان میں سے کسی بھی پارٹی کے 3 ممبران کانگریس کو حمایت دینے کو تیار ہوجاتے ہیں تو وہاں کے سیاسی حالات بدل سکتے ہیں۔ اسی حالات سے بچنے کے لئے پارٹی کو لگ رہا ہے کہ منوہر پاریکر کے بیمار ہونے کے باوجود ان کی جگہ اور کسی کو وزیر اعلی بنانے کا اعلان نہ کیا جائے جب تک پارٹی کے اندر اور اتحادیوں میں پورا اتفاق رائے نہ بن جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟