مودی سرکار15-20 صنعت کاروں کیلئے کام کررہی ہے

کانگریس صدرراہل گاندھی نے پیر کو مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں وزیر اعظم نریندر مودی و ان کی سرکار اور بھاجپا پر جم کر تنقید کی۔مودی جی کی سرکار محض 15-20 بڑے صنعتکاروں کے لئے کام کررہی ہے۔ راہل نے یہاں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کے روڈ شو کے بعد بھوپال دسہرہ میدان میں پردیش بھر سے آئے کانگریسی ورکروں سے بات چیت کرتے ہوئے رافیل سودے اور بینکوں کے این پی اے نوٹ بندی ، جی ایس ٹی وغیرہ کو لیکر مرکزی حکومت پر الزامات لگائے۔ راہل گاندھی نے این پی اے کا تذکرہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پچھلے سال مودی سرکار نے دیش کے 15 فیصد صنعتکاروں کا ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کیا۔ وہ پانچ ہزار روپے کے قرض دار کسان کو چور کہتے ہیں لیکن ہزاروں کروڑ روپے کا قرض واپس نہیں کرنے والے وجے مالیا، نیرو مودی، میہل چوکسی ان کے دوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے بارہ لاکھ کروڑ روپے کا این پی اے ہے آپ کا پیسہ مالیا جیسوں کی جیب میں جارہا ہے۔ گاندھی نے رافیل سودے میں مودی پر سیدھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس کا ٹھیکہ ہندوستان ایرونوٹیکلس لمیٹڈ سے چھین کر اپنے دوست صنعتکار انل انبانی کو دے دیا۔ انبانی پر بینکوں کا 45 ہزار کروڑ روپے کا قرض ہے۔ کانگریس نے مودی سرکار پر صنعتکاروں کو بچانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پچھلے تین چار سال کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ صنعتکاروں کے خلاف جہاں بھی جانچ شروع ہوتی ہے سرکار مداخلت کر معاملہ کو جلد بند کرادیتی ہے۔ کانگریس ترجمان جے رام رمیش نے پیر کو نئی دہلی میں پیرس کانفرنس میں کہا کہ مودی سرکار جس ڈھنگ سے صنعتکار گوتم اڈانی کو بچا رہی ہے دنیا جانتی ہے۔ رمیش نے کہا کہ ڈی آر آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق اڈانی گروپ پر بجلی کے سازو سامان کی خرید میں 6600 کروڑ روپے کی دھاندلی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ڈی آر آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سازو سامان کو ان کی لاگت سے 6600 کروڑ روپے زیادہ قیمت پر خریدہ گیا ہے۔ اڈانی گروپ کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے لیکن دباؤ اور سرکار کے بڑے افسران نے کہہ دیا کہ جانچ رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لگائے گئے کوئی بھی الزام صحیح نہیں ہے۔ ڈی آر آئی کے ذریعے اس کی جانچ 2014 سے کی جارہی تھی۔ اسی طرح گجرات میں بھی اڈانی کو بچانے کی کوشش ہوئی ہے۔ وہاں اڈانی گروپ نے 2007 میں ریاستی سرکار کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھاکہ وہ 2.40 پیسے فی یونٹ کی شرح سے بجلی دستیاب کرائے گا۔ بعد میں کمپنی معاہدے سے مکر گئی اور مدد مانگنے لگی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو عدالت نے کہہ دیا جو معاہدہ ہوا ہے اسی بنیاد پر بجلی دینی ہوگی لیکن ریاستی حکومت عدالت کے فیصلے کے خلاف کمپنی کو راحت دینے پر رضامند ہوگئی ہے۔ رمیش نے کہا کہ گجرات سرکار کے اس فیصلے سے اگلے 30 سال تک بجلی سیکٹر کی تین کمپنیوں کو 1لاکھ70 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ ہوگا اور بینکوں کو ہر سال اس کے سبب 18 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟