آبروریزی کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں!

دیش میں جس رفتار سے آبروریزی کے واقعات ہورہے ہیں وہ ہمارے سماج کیلئے نہ صرف شرم کی بات ہے بلکہ ایک زبردست چنوتی بھی ہے۔ انہیں کیسے روکا جائے؟ یہ تشویش اس لئے بھی بڑھتی جارہی ہے کہ ہماری پولیس بھی شروعاتی لاچاری اور سیاست کی غیر سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ آئے دن آبروریزی کے واقعات سے دل بیٹھ جاتا ہے۔ ہریانہ کے ریواڑی میں ایک ہونہار طالبہ کے ساتھ 56 مرتبہ آبروریزی کی واقعات حیرت میں ڈالنے والی ہے۔ جس ریاست کی بیٹیاں کھیل کی دنیا میں اپنا اور دیش کا پرچم لگاتار لہرارہی ہیں اس ریاست میں بیٹیوں کی حفاظت کا یہ عالم ہے کہ کچھ لڑکے بس اڈے سے ایک لڑکی کا اغوا کرتے ہیں ،پھر اس کے ساتھ غیر انسانی درندگی کرنے کے کچھ گھنٹے بعد اسی بس اڈے پر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ جس شخص کے ٹیوب ویل کے پاس اس واردات کو انجام دیاگیا اس شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ہریانہ کی ایس آئی ٹی نے اتوار کی دیر رات واردات کے سازشی اور بنیادی ملزم نبھو کو گرفتار کرلیاہے۔ واردات میں شامل دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے ، وہ ابھی گرفتار نہیں کئے جاسکے۔ ریواڑی کے ایس پی راجیش دگل کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ میوات کی ایس پی نازنین بھسین نے بتایا کہ وہ دیگر ملزمان پنکج جین جو فوج کا جوان ہے اور منیش کی تلاش جاری ہے۔ اس معاملہ میں اب تک تین گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ ایس پی بھسین کا کہنا ہے نبھو نے ہی سازش رچی تھی۔ لڑکی کے رشتے داروں نے میڈیا سے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس حادثے سے ان کو گہرا دھکا پہنچا ہے۔ متاثرہ کی ماں نے انصاف کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ایسی درندگی کرنے والے ملزمان کو پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے۔ انہوں نے انتظامیہ کے ذریعے مالی مدد لوٹانے کی بھی بات کہی۔ پریوار نے انتظامیہ کے ذریعے دئے گئے دو لاکھ روپے کا چیک لوٹانے کا فیصلہ کیا، ہمیں اس چیک کی ضرورت نہیں ہے ،کیا یہ قیمت ہماری بیٹی کی عزت کی لگائی جارہی ہے؟ ہمیں روپے پیسے نہیں بس انصاف چاہئے۔ ہم نے قانون کے لمبے ہاتھوں کے بارے میں سنا ہے لیکن پولیس اب تک کیا کررہی ہے؟ ملزمان کو واردات کے اتنے دن بعد بھی نہیں پکڑا جاسکا۔ جن تین ملزمان پنکج، منیش،نشو کا نام ایف آئی آر میں درج ہے متاثرہ کے ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور اس کے خاندان کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ اس درمیان ہسپتال میں بھرتی متاثرہ لڑکی کی حالت میں بہتری آئی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ متاثرہ نے کھانا پینا شروع کردیا ہے۔ حالانکہ وہ صدمے میں ہے جس سے نکلنے کے لئے وقت لگے گا۔ سخت سزا کے باوجود آبروریزی کے واقعات بڑھے ہیں لیکن انہیں سنجیدگی سے لینے کے بجائے ان پر سیاست شروع ہوجاتی ہے نتیجتاً بنیادی مسئلہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔ ایسے واقع کے لئے ملزمان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟