مظفر پور کے بعد اب دیوریا کانڈ

بہار کے مظفر پور کانڈ پر تنازع ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ اترپردیش کے دیوریا میں بھی اسی جیسا جنسی استحصال معاملہ سامنے آگیا ہے۔ اس کا انکشاف تب ہوا جب دیوریا کے شیلٹر ہوم سے ایتوار کی رات بھاگ کر 10 سالہ بچی مہلا تھانہ پہنچی اور بتایا کہ کس طرح بچیوں سے جبراً جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ لڑکی کے بیان کے بعد انتظامیہ نے دیوریا کے اطفال و خواتین پروٹکشن ہوم پر چھاپہ مارا اور وہاں موجود24 لڑکیوں کو رہا کرایا۔ اس شیلٹر ہوم کی 18 لڑکیاں اب بھی غائب ہیں جنہیں تلاش کیا جارہا ہے۔ مظفر پور اور دیوریا کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے دیش میں بالیکا یا لڑکیوں کے شیلٹر ہوم چلانے کا کام ناپسندیدہ لوگ کررہے ہیں۔ اس بھی تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسے نام نہاد سماجی کارکن جس قسم کی کرمنل سرگرمیوں میں ملوث ہیں ا س سے یہ صاف ہے کہ مظفر پور بچیوں کے شیلٹر ہوم کو چلانے کا کام ایک بدکردار ساکھ اور داغدار ماضی والے شخص کے ہاتھ میں تھا۔ ویسے ہی یہ ماننے کے کافی اسباب ہیں کہ دیوریا بچیوں کے شیلٹر ہوم کی کمان بھی مشتبہ قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ گئی ہے وہ سماج سیوا کے نام پر اس طرح کا کالا گورکھ دھندہ کررہے تھے اب پتا چل رہا ہے کہ جن لڑکیوں کو تحفظ دیکر آپ کو ایک لائق اور باہمت اور خود کفیل بنانے کی ذمہ داری تھی ان کو پیسے کے لئے جسم فروشی کے کاروبار میں شامل ہونے کو مجبور کردیا گیا۔ ان واقعات کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ لڑکیوں کے شیلٹر ہوم کے نام پر اور دیگر ایسی ہی بچیوں کا جسمانی استحصال ہورہا ہوگا۔ اس سے سبق لیکر دیش بھر میں چلنے والے ایسے شیلٹر ہوم کی فوری جانچ کرائی جانی چاہئے۔ ایسا صرف دو اداروں تک ہی محدود نہیں ہوسکتا۔ ان دو کا تو پتہ چل گیا ہے۔ یہ حکمرانی و انتظامیہ کی ناکامی تو ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ زیادہ قصوروار وہ عناصر ہیں جو شیلٹر ہوم چلاتے ہیں۔ یہ صرف ان بچیوں کے قصوروار ہی نہیں ہیں بلکہ مہذب سماج کے لئے دشمن بھی ہیں۔بچیوں کے شیلٹر ہوم کو چلانے کا کام کوئی این جی او کرے یا سرکار یہ یقینی کرنا ہوگا۔ جو قاعدے قانون ہیں ان کی تعمیل ہو اور متعلقہ مشینری کا جائزہ اور اس میں ضروری تبدیلی کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا کہ مرکزی حکومت اس مسئلہ پر سبھی ریاستوں سے مل کر پورے معاملہ میں قواعد کا جائزہ لے۔ اس سے بھی ضروری ہے کہ ایسے شیلٹر ہوم معمولاتی چیکنگ ہو۔ یہ واقعات قومی شرم کا باعث ہیں اور سرکار ، انتظامیہ قصوروار ہے تو سماج بھی کم قصوروار نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟