2019 لوک سبھا چناؤ کیلئے مہا دباؤ

اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن کی مانگ ایک بار پھر زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ ویسے یہ مانگ کوئی نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس کے مطالبہ ہوتے رہے ہیں۔ اس سمت میں سب سے پہلے اور سب سے سنگین پہلو پچھلی صدی کے 90 کی دہائی میں ہوا تھا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے تب سماجی صورتحال کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔ منڈل کمیشن کی سفارشیں لاگو ہونے کے بعد بڑی ذاتوں میں پھیلی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے 25 ستمبر 1991 کو نرسمہا راؤ سرکار نے اقتصادی طور سے کمزور طبقات کے لئے 10 فیصد ریزرویشن دینے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ نوٹیفکیشن کو اندرا سہانی نے چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ کی 9 نفری بنچ نے اس نوٹیفکیشن کو خارج کردیا تھا اور کہا تھا کہ آئین میں ریزرویشن کی بنیاد پر کسی گروپ یا ذات کی سماجی پوزیشن ہے نہ کہ اقتصادی پوزیشن۔ اس کے بعد اترپردیش کا وزیر اعلی رہتے ہوئے راجناتھ سنگھ نے 2001 میں اوبی سی میں انتہائی پسماندہ اور اقتصادی طور پر کمزور بنیاد بنا کرریزرویشن کی پہل کی تھی۔ حالانکہ ان کے اس فیصلہ کوبھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ اگر مودی سرکار ریزرویشن دینے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ 2019 لوک سبھا چناؤ میں بڑا داؤ ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف مرکزی وزیرنتن گڈکری کا کہنا ہے کہ ریزرویشن روزگار کی گارنٹی نہیں ہے کیونکہ نوکریاں کم ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ ایک سوچ ہے جو چاہتی ہے کہ پالیسی ساز ہر فرقہ کے غریبوں پر غور کرے۔ گڈکری مہاراشٹر میں ریزرویشن کے لئے مراٹھوں کے موجودہ آندولن اور دیگر فرقوں کے ذریعے اس طرح کی مانگ سے جڑے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ سینئر بھاجپا لیڈر نے کہا مان لیجئے ریزرویشن دے دیا جاتا ہے لیکن نوکریاں نہیں ہیں۔ کیونکہ بینک میں انفورمیشن ٹکنالوجی کے استعمال کے سبب نوکریاں کم ہوئی ہیں۔
سرکاری بھرتی رکی ہوئی ہے۔ نوکریاں کہاں ہیں؟ نتن گڈکری کی یہ صاف گوئی مودی سرکار کے سامنے مصیبت کھڑی کر سکتی ہے کیونکہ انہوں نے یہ قبول کرلیا ہے کہ نوکریاں گھٹتی جارہی ہیں اور ان کی طرف سے یہ صاف کیا گیا کہ ایک تو انفورمیشن ٹکنالوجی کے استعمال سے نوکریاں کم ہورہی ہیں اور بھرتی بھی بند ہے۔ بیشک گڈکری نے آج کی سچائی بیان کردی ہے اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے سرکار اپنی ذمہ داریاں کم کرکے نجی کرن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آئین کی دفعہ46 میں کہا گیا ہے کہ سماج میں تعلیم اور اقتصادی طور سے کمزور لوگوں کے مفاد کا خاص دھیان رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ سرکار درج فہرست ذاتوں اور قبائلی لوگوں کو استحصال سے بچایا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟