ہند۔نیپال رشتوں کو نئی اڑان

چین کے بڑھتے اثر کے اندیشات کو خارج کرتے ہوئے بھارت اور نیپال نے آپسی رشتوں کو نئے مقام تک پہونچانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس کے تحت کٹھمنڈواو ردہلی سیدھے ریل لائن سے جڑ جائیں گے ۔ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان ندی ٹرانسپورٹ کے راستے بھی کھولے جائیں گے ۔وزیر اعظم نریندرمودی اور نیپالی ہم منصب مسٹر کے پی شرما اولی میں ہوئی بات چیت کی خاص بات یہ رہی ہے دونوں سربراہوں کی ملاقات میں نوٹ بندی ۔اور مدھیشی اور یہاں تک کے چین کا کوئی ذکر نہیں آیا حالانکہ اولی پچھلے بار اقتدار سے باہر ہونے اور طویل عرصہ تک نیپال کی نوٹ بندی پر پیچھے بھارت کی طرف انگلی اٹھاتے رہے ہیں ۔ مگر دوبار ہ اولی کے وزیر اعظم بننے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کوبھارت آنے کی دعوت دی تھی ۔نیپال کے چین کی طرف راغب ہونے کے اندیشہ کے درمیان وہاں کے وزیر اعظم مسٹر کے پی شرما اولی نے اپنے پہلے خارجی دور ے کیلئے نئی دہلی (ہندوستان )کا انتخاب کرکے یہی اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت سے رشتے بہتر بنانے کے خواہشمند ہیں لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں ملکوں کے وزرائے ااعظم نے متنازعہ اشو کو کنارے رکھ کر آگے بڑھنے کا جو فیصلہ کیا اسکے نتیجے کتنے مثبت ہونگے ۔مگر اس میں دورائے نہیں کہ بھارت ۔نیپال میں سماجی اور ثقافتی طور پر جیسی قربت ہے کسی دیش میں مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے ۔دونوں ملکوں کے شہریوں کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں دوستانہ جذبہ اور روٹی ۔بیٹی کے بھی رشتے ہیں ایسی صورت میں دونوں ملکوں کے مفاد میں بہتر ہی ہوگا کہ وہ پرانی کڑواہٹ کو بھول کر آگے بڑھیں ایک طرف جہاں بھارت کو یہ یقینی کرنا ہوگا وہ نیپال کی مدد میں بڑے بھائی کا کردار نبھائے ساتھ ہی نیپال کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ چین فروغ کے رویہ ہندوستان کی تشویشات کو سمجھے بلاشبہ نیپال کسی ملک کے ساتھ دوستی کرنے کیلئے آزاد ہے ۔مگر ایک پڑوسی کے ناطے اتنا آگے بڑھنا چاہئے کہ بھارت کے مفادات کے ساتھ ساتھ اسکے اپنے مفاد پر آنچ نہ آئے۔بھارت امید یہی کرتا ہے کہ نیپال کی قیادت خود اس بات کو سمجھنے کو تیار ہوگی چین کی طرح چھوٹے ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسا تا ہے ۔ ہندوستانی لیڈر شپ یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوگی کہ چینی مدد کس طر ح اسکے (درمیان )کے گلے کا پھندہ بن سکتی ہے ۔بھارت کے سامنے چنوتی صرف نیپال میں چین کے بڑھتے اشو کو کم کرنے اور پڑوسی دیش کو اعتماد میں لینے کی ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں چین کی گھیرابندی کی کاٹ کیسے کی جائے کیونکہ چین ایک کے بعد ایک ساؤتھ ایشیا کی دیشوں یعنی بھارت کے پڑوس میں اپنا دخل جس طر ح بڑھاتا جارہا ہے ۔اسے دیکھتے ہوئے بھارت کو پڑوسی ملکوں کے ساتھ رشتوں کو بہتر بنانے کیلئے کچھ آگے بڑھنا ہوگا ۔ کیونکہ مالدیپ میں اپنی جڑیں جمانے کے بعد چین میانمار میں بھی مدد کے نام پر اپنا جال پھیلا رہا ہے ۔ سری لنکا ۔بنگلہ دیش میں بھی اسکی سرگرمیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔دنیا بھی جانتی ہے کہ پاکستان بھی اپنی مرضی سے چین کی گود میں بیٹھنے کو بے چین دکھائی پڑتا ہے ۔بھارت پڑوں ملکوں کو مالی مدد ضرور دے رہا ہے لیکن چینی مدد کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہے یہ فطری ہے جہاں زیادہ مدد ملے گی وہ ملک اس کی طرف راغب ہوگا ۔ اس لئے بھارت کو ایسی تنظیم یا ادارے کی مدد لینی چاہئے کہ وہ نیپال سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے رشتوں مںے بہتری لانے میں مدد گار ثابت ہو ۔ نیپالی لیڈ ر اولی کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جوبات چیت ہوئی ہے اس کے اچھے ہی نتیجے سامنے آئیں گے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟