دیکھیں کرناٹک میں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے

کرناٹک اسمبلی چناؤکی کمپین ختم ہوگئی، آج ووٹ ڈالنے کی باری ہے۔ کمپین کی بات کریں تو اتنی خطرناک چناؤ کمپین پہلے کبھی شایدنہیں ہوئی ہوگی۔ کانگریس اور بھاجپا نے کمپین میں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں زبان میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس بار کرناٹک میں کمپین جس سطح پر ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تو غلط نہیں ہوگا۔ کرناٹک چناؤ میں دونوں کانگریس اور بھاجپا کی اپنی اپنی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔ چناؤ سے پہلے آئے بڑے 10 اوپین پول میں سے7 نے کانگریس کو بھاجپا سے زیادہ ووٹ دئے ہیں۔ ان سبھی پول میں کانگریس کو35 سے زیادہ ووٹ ملے ہیں یہ ہی نہیں کانگریس ان 35 برسوں میں ہوئے 8 چناؤ میں صرف 1 چناؤ میں 34 فیصد سے کم ووٹ ملے ہیں۔ کانگریس کو سب سے کم ووٹ 1996 میں 26 فیصد ووٹ اور 34 سیٹیں ملی تھیں۔ ریاست کے پچھلے8 چناؤ میں سے 4 میں کانگریس کو40 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کرناٹک میں پچھلے 35 سال میں یعنی جب سے بھاجپا ریاست میں چناؤ لڑ رہی ہے تب سے اب تک کبھی بھی کانگریس کو بھاجپا سے کم ووٹ نہیں ملے ہیں۔ یہاں تک کہ 2008 میں جب بھاجپا کی ریاست میں پہلی بار سرکار بنی تھی تب بھی کانگریس کو بھاجپا سے قریب ایک فیصدی ووٹ زیادہ ملے تھے۔ 2008 کے اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو33.86 فیصد ووٹ اور 110 سیٹیں ملی تھیں وہیں کانگریس کو 34.76 فیصدی ووٹ اور 80 سیٹیں ملی تھیں۔ کرناٹک میں اسمبلی چناؤ کمپین کے آخری دن کانگریس صدر راہل گاندھی نے تلخ حملہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ بھاجپا ریاست میں کانگریس کے خلاف مقابلہ میں نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ بینکوں میں جمع 90 فیصدی رقم دیش کے 15 امیر صنعت کاروں کے ہاتھوں میں جارہی ہے۔ ریاست میں موجودہ سدارمیا حکومت اور اس سے پہلے بھی بھاجپا سرکار کے کام کے مقابلہ کی تفصیل ایک گرافک ٹوئٹرپر شیئرکی گئی ہے۔ کانگریس صدر کی جانب سے پوسٹ کئے گئے گرافک میں دعوی کیا گیا ہے کہ سدا رمیا سرکار بھاجپا سرکار کے مقابلے میں کافی آگے ہے۔ بنگلورو میں کپڑا صنعت کی مہلا ملازمین سے بات چیت میں کہا کھان کاروباری ریڈی بندھوؤں میں بھی 35 ہزار کروڑ روپے چرائے ہیں جس سے ہزاروں نوکریاں پیدا ہوسکتی تھیں۔ راہل گاندھی پر تلخ حملہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بدھوار کو حیرانی جتائی۔ کیا دیش کبھی ایسے غیر سنجیدہ اور نامدار نیتا کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے قبول کرے گا؟گاندھی خاندان کو تلخ نشانہ بناتے ہوئے مودی نے کہا انہیں (راہل گاندھی) وزیر اعظم کی کرسی ایک خاندان کے لئے ریزرو ہے اور اس پر کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ انہیں لگتا ہے یہ موقعہ ان کا کنبہ جاتی ہے۔ ایک دن پہلے بنگلورو میں راہل گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر کانگریس 2019 کے چناؤ میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لئے تیار ہیں۔ مودی نے کہا صبح سے لیکر شام تک ، سوچے جاگتے ان کے دل میں صرف ایک چیز رہتی ہے وہ ہے وزیر اعظم کی کرسی۔ مودی نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی دن میں ہی خواب دیکھ رہے ہیں۔ کرناٹک میں آج ووٹ پڑنے والے ہیں، دیکھیں کہ اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟