ہمیں کیوں نہیں ملتی طوفان آنے کی آہٹ

قدرت کا قہر لمحہ بھر میں ہی تباہی مچا دیتا ہے۔ موسم کے اچانک پلٹنے سے بدھوار کو راجستھان اور اترپردیش میں وسیع تباہی مچی۔ 132 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلی آندھی طوفانی ہوا نے نہ صرف کئی جانیں لے لیں ساتھ ہی گیہوں، آم، سرسوں کی فصل کو بھی نقصان پہنچایا۔ اب تک سوا سو سے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ملی ہے جبکہ 70 سے زیادہ لوگ اترپردیش میں اور 40 سے زیادہ لوگ راجستھان میں اس کی زد میں آگئے ہیں۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ بھاری تام جھام اورنامی سائنسدانوں سے بھرے پڑے محکمہ موسم نے مشرقی اور نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں 1 سے4 مئی تک بھاری بارش اور طوفان کی وارننگ دی تھی۔ اس میں کہیں بھی اترپردیش کا ذکر نہیں تھا جبکہ سب سے زیادہ نقصان راجستھان، اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش،بنگال اور بہار میں ہوا جبکہ موسم کی جانکاری دینے والے ادارہ اسکائی مینٹ نے نارتھ انڈیا میں تباہی کا اندیشہ جتایا تھا اور وارننگ بھی جاری کی تھی۔ محکمہ موسمیات کی ایسی ناکامی سرکار اورجنتا دونوں کے لئے تشویش کا سبب ہے۔ سینکڑوں جانور مارے گئے، مکان ڈھے گئے اور پیڑ ٹوٹنے ،بجلی کے کھمبے گرنے کے علاوہ گیہوں اور آم کی فصل بھی برباد ہوئی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق زیادہ درجہ حرارت ہوا میں نمی کم دباؤ کا زون بن جانے سے طوفان آنا لازمی ہے اور چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہی ہوتا ہے ایسے میں باقاعدہطور پر ایسے بونڈر سے بچنے کا وقت نہیں مل پاتا۔ پریشانی کی بات اس لئے بھی ہے کیونکہ بھارت کی معیشت میں ذراعت کا اہم اشتراک ہے اور اگر کسانوں کو موسم کی ایسی مار جھیلنی پڑے گی تو دیش کی معاشی صورتحال بھی کمزور ہوگی اس کے چلتے موسم کی وقت رہتے پختہ جانکاری بیحد ضروری ہے۔ اگر صحیح وقت سے جانکاری مل جائے تو بہت سے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے ہمارے محکمہ موسمیات کا اندازہ تقریباً صحیح ہونے لگا تھا اور اڑیسہ میں زبردست طوفان سے جان مان کی حفاظت میں اس کا خاص اشتراک رہا تھا۔ دراصل سونامی جیسی خوفناک تباہی والے خوفناک طوفان کے بعد سرکار جاگی تھی اور اس نے نہ صرف سیٹلائٹ اور مرینوں پر بلکہ ماہرین پر کافی پیسہ خرچ کیا تھا۔ موجودہ چوک اتفاقی قدرتی مار ہوسکتی ہے اور اس کا کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے محکمہ موسمیات کے حکام کو وارننگ دے کر خاموش تو ہوا جا سکتا ہے مگر بہت سے دیشوں میں موسم کے پل پل بدلتے رخ کا پتہ شہریوں کو مہیا کرایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر طرح کی سہولیات ہونے کے باوجود ہمارے دیش میں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟