نیشنل فلم ایوارڈفنکشن تنازعات میں

نیشنل فلم ایوارڈ فنکشن کی اپنی اہمیت ہے۔ بڑے سے بڑا فلم ساز نیشنل ایوارڈ پا کر فخر محسوس کرتا ہے ۔ اسے پاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں الگ چمک ہوتی ہے اور ہونٹوں پر ایک الگ مسکان اور چہرے پر ایک الگ سکون ہوتا ہے۔ یہ ایوارڈ جہاں کسی فلم ایکٹر کے فن کی کوالٹی کو ایک پہچان اور منظوری دیتا ہے وہیں دیش کے صدر کے ہاتھوں سے اس کا ملنا ان کی زندگی کا ایک نایاب لمحہ بن جاتا ہے ۔ لیکن اس بار 3 مئی کو نئی دہلی کے وگیان بھون میں 65 واں نیشنل فلم ایوارڈ فنکشن تنازعوں میں آگیا ہے۔ خوشی اور جوش کے موقعہ پر یہ غمگین اور مایوسی کا ماحول اچانک تب بنا جب ایوارڈ پانے والوں کو 2 مئی کو فنکشن کی ریہرسل کے دوران پتہ لگا کہ اس مرتبہ صدر جمہوریہ اپنے ہاتھوں سے نہ صرف 11 افراد کو ہی ایوارڈ دیں گے اور دیگر انعام پانے والوں کو اطلاعات و نشریات محترمہ اسمرتی ایرانی نوازیں گی۔انعام ونرس نے اس سے ناراض ہوکر تقریب کا بائیکاٹ کردیا۔ 53 ونر اپنا ایوارڈ لینے نہیں پہنچے۔ دراصل اب تک یہ ایوارڈ صدر جمہوریہ ہی دیتے رہے ہیں۔ صدر کے پریس سکریٹری کا کہنا ہے کہ صدر رامناتھ کووند عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی ایسے پروگراموں کے لئے صرف ایک گھنٹے کا وقت دے رہے ہیں۔ یوم جمہوریہ یا کوئی بیحد اہم ترین میٹنگ ہی اس کا جواز ہوسکتی ہے۔ منتظمین کو کئی ہفتے پہلے بتادیا گیا تھا کہ صدر اس پروگرام کے لئے ایک گھنٹہ ہی دستیاب رہیں گے۔ پہلی بار یہ انتظام کیا گیا تھا جو نیشنل فلم ایوارڈ تقریب کے بنیادی مقصد کے برعکس تھا، وہ مقصد تھا دیش میں فلم آرٹ کلچر کو بڑھاوا دینے کے لئے حکمرانی کے سب سے اعلی عہدہ پر بیٹھے صدر سے آرٹسٹوں کو اعزاز سے نوازنا۔ اس کے ذریعے فنکاروں کے کام کی سراہنا کے ساتھ ساتھ ان کی قومی اہمیت کی بھی نشاندہی کرنا تھا۔ صدر کو یہ کام کرنا تھا تاکہ آرٹسٹوں میں اپنے ٹیلنٹ دکھانے پر سنمانت ہونے کا سب سے عمدہ احساس ہو لیکن جانے کیا سوچ سمجھ کر یہ کام دو ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا۔ کیا صدر کسی ضروری کام میں مصروف ہوگئے تھے؟ ایسی تو کوئی اطلاع بھی نہیں تھی اور نہ ہی دیش میں کوئی ناگزیں صورتحال پیدا ہوگئی تھی جس میں صدر کا حصہ لینا تقریب سے زیادہ ضروری ہوگیا تھا۔ پھر یہ سسٹم کس کے کہنے پر بنایا گیا؟ کس سے ان فنکاروں توہین ہوئی جنہیں نیشنل ایوارڈ صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ملنے تھے۔ رامناتھ کووند سے پہلے جتنے بھی صدر ہوئے ہیں وہ آرٹسٹوں کو اعزاز سے نوازنے کے لئے پورا وقت نکالتے رہے ہیں پتہ نہیں صدر محترم نے ایسا قانون کیوں بنایا کہ وہ ایسی کسی تقریب میں صرف ایک گھنٹہ ہی دیں گے۔جب روایت یہ ہوتی آئی ہے تو اس پر کیوں نہیں عمل کیا گیا؟ اس پر فلمساز شان بینگل کا یہ کہنا صحیح لگتا ہے کہ جب آپ کے پاس ہمیں سنمانت کرنے کا وقت ہی نہیں ہے تو پھر ہمیں بلاتے کیوں ہے؟ ایسا کہنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ظاہرہے اس غیر متوقعہ واقعہ کو فلم صنعت نے اپنے تئیں حکومت کی تقسیم کاری اور حقارت کا احساس مانا ہے۔ اس سے ان کا وقار ڈاؤن ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے احتجاج کو بھی سمجھنا چاہئے کہ سوال یہ بھی ہے کہ جب وزارت اطلاعات و نشریات کو یہ پہلے سے پتہ تھاتو ایوارڈ ونرس کو اندھیرے میں کیوں رکھا گیا؟ لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ بھی ہے کہ نیشنل فلم ایوارڈ فنکشن جیسا پروگرام صدر موصوف کیلئے کم اہم ترین کیوں ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟