عہدہ چھوڑنے کے بعد وزیر اعلی بھی عام آدمی ہے

وزیر اعلی اپنی کرسی سے ہٹتے ہی عام آدمی کی کیٹگری میں آجاتا ہے۔ ایسے میں اسے سرکاری رہائشگاہ کیوں چاہئے؟ اس ریمارکس کے ساتھ سپریم کورٹ نے یوپی کے اس قانون کو منسوخ کردیا جس میں سابق وزیر اعلی کو تاعمر سرکاری بنگلہ دینے کی سہولت تھی۔ جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس آر بھانمتی کی بنچ نے تاریخی اور دوررس فیصلہ میں کہا کہ سابق وزیر اعلی عام شہری میں کسی طرح کا امتیاز نہیں ہوسکتا۔ سابق وزیر اعلی اپنے پاس رہے عہدہ کی خصوصیت کی وجہ سے سکیورٹی سمیت دیگر پروٹوکول پانے کا حقدار ہے لیکن عہدہ سے ہٹنے کے بعد بھی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی اجازت دینا یکسانیت کے آئینی اصول کے خلاف ہے۔ بڑی عدالت نے کہا قدرتی وسائل، سرکار زمین و چیزیں جن میں سرکاری رہائشگاہ بھی آتی ہے پبلک پراپرٹی ہے ، یہ دیش کے لوگوں کی ہے، ریاستوں کو اپنے وسائل کی تقسیم میں انصاف کا خیال رکھنے والی یکسانیت کے اصول کا پابند ہونا چاہئے۔ بنچ نے کہا کہ اترپردیش منتری (تنخواہ بھتہ و قانونی سہولت)1981 ایکٹ شہریوں کا ایک الگ طبقہ تیار کرتا ہے ۔ یہ انہیں سابق پبلک نمائندہ کی بنیاد پر سرکاری املاک کا حقدار بناتا ہے۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی انہیں الگ طبقہ کی حیثیت دینا منمانا و امتیاز پر مبنی ہے۔ یہ آئینی تقاضوں کے فیصلے کے برعکس ہے۔ ابھی اترپردیش کے سابق وزیر اعلی این ڈی تیواری، ملائم سنگھ یاو، کلیان سنگھ، راجناتھ سنگھ، اکھلیش یادو اور مایاوتی کو راجدھانی لکھنؤ میں سرکاری بنگلہ ملا ہوا ہے۔ دہلی میں سی ایم کو عہدہ سے ہٹنے کے بعد تین مہینے کے اندر بنگلہ خالی کرنا ہوتا ہے اس کے بعد وہ بازار کی شرح سے کرایہ دیکر چھ مہینے تک اس میں رہ سکتے ہیں۔ دیش کی سبھی سیاسی پارٹیوں کو خود آگے آکر سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی حمایت کرنی چاہئے اور جتنے بھی سابق وزیر اعلی غیر آئینی سہولیت کا استعمال کررہے ہیں انہیں مرضی سے اسے چھوڑدینا چاہئے۔ دراصل سیاسی طبقہ کا رویہ اور طرز عمل اور کلچر سامنتو کی طرح ہوگیا ہے جو عام جنتا کو پرجا اوراپنے آپ کو حکمراں طبقہ کی طرح مانتا ہے۔ اگست 2016 میں ایک غیر سرکاری تنظیم لوک پرہیری کی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اترپردیش کے سابق وزیر اعلی کو سرکاری بنگلہ الاٹ کرنے کی سہولت کو منسوخ کردیا تھا لیکن تب اکھلیش سرکار نے اترپردیش منتری گن قانون 1981 میں ترمیم کرکے سابق وزرائے اعلی کو مخصوص حق دیکر محفوظ کردیا تھا۔ اس ترمیم کو لوک پرہیری نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت کا یہ فیصلہ دیش کے تمام راجیوں پر لاگو ہوگا۔ راجستھان، بہار، آسام جیسی ریاست بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہیں۔ بنگلے جتنی جلدی خالی ہوجائیں اتنا ہی اچھا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟