چین جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے، لیکن کیا وہ حملہ کرے گا

پچھلے دو مہینے سے بھوٹان کی ڈوکلام سرحد پر بھارت اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال جاری ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے ہیں۔ اس پورے پس منظر میں بھوٹان کا کیا موقف ہے؟ آخر کیا ہے ڈوکلام کی فوجی اہمیت؟ بھوٹان اور بھارت کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہے جس کے تحت اقتصادی اور فوجی سطح پر دونوں دیش ساتھ ہیں۔ ڈوکلام سرحد پر چین کے ذریعے سڑک بنانے کو لیکر بھوٹان نے اپنا اعتراض جتایا ہے۔ بھوٹان اور چین کے مابین سفارتی رشتے نہیں ہیں۔ وہیں بھارت اور بھوٹان کے درمیان کافی گہرے تعلقات ہیں۔ دونوں کے درمیان 1949ء میں’ فرینڈ شپ ٹریٹی‘ ہوئی تھی اس کے تحت بھوٹان کو اپنے خارجی رشتوں کے معاملے میں بھارت کو بھی شامل کرنا ہوتا تھا۔ 2007ء میں اس معاہدے میں ترمیم ہوئی تھی۔ کیا بھوٹان اور بھارت کی قریبی چین کو کھٹکتی ہے؟ چین نے بھوٹان کے ساتھ سرحدی تنازعہ سلجھانے کی کوشش کی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس میں بھارت شامل نہ ہو۔ حالانکہ اس معاملہ میں بھوٹان نے صاف کہا کہ جو بھی بات ہوگی وہ بھارت کی موجودگی میں ہوگی۔ 1949ء میں بھارت اوربھوٹان کے مابین جو فرینڈشپ سمجھوتہ ہوا تھا اس میں 2007 میں ترمیم کی گئی تھی۔ ترمیم سے پہلے اس سمجھوتے میں تھا کہ بھوٹان سبھی طرح کے خارجی تعلقات کے معاملے میں بھارت کو مطلع کرے گا۔ ترمیم کے بعد اس میں جوڑا گیا کہ جن خارجی امور میں بھارت سیدھے طور پر وابستہ ہوگا انہی میں سے اسے مطلع کیا جائے گا۔ چین کو یہ معاہدہ کھٹکتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ بھوٹان اور بھارت کے درمیان کی دوستی کو اور قریب لانے میں اس معاہدے کا بڑا اہم اشتراک رہا ہے۔ بھارت اور بھوٹان کے درمیان یہ معاہدہ چین کو ہمیشہ چبھتا رہا ہے۔ بھوٹان اور چین کے مابین جو بات چیت ہے اس میں بھارت کا کوئی لیگل رول تو نہیں ہے حالانکہ بھارت کا مفاد متاثر ہوگا اور اس میں بھوٹان کو بھارت کو مطلع کرنا ہوگا۔ چین اور بھوٹان کے درمیان مغرب اور شمال میں قریب 470 کلو میٹر لمبی سرحد واقع ہے۔ دوسری طرف بھارت اور بھوٹان کی سرحد مشرق، مغرب اور جنوب میں 605 کلو میٹر ہے۔ ڈوکلام ٹرائی جنکشن پر چینی فوج کی موجودگی کو ہندوستانی فوج نے تین طرف سے گھیر رکھا ہے۔ تینوں سمتوں میں ہندوستانی فوج چینی فوج کے مقابلہ اونچائی پر ہے۔ اس فوجی اضافے نے ڈوکلام میں چین کو الجھا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین بھلے ہی بار بار جنگ کی دھمکی دے رہا ہے، لیکن اس کے لئے کسی بھی فوجی کارروائی کی راہ آسان نہیں ہے۔ فوجی امور پر حکمت عملی سازوں کا کہنا ہے کہ ڈوکلام میں ہی نہیں پوری کنٹرول لائن (ایل او سی) پر چین کو کسی کارروائی کے لئے بڑی تیاری کرنی ہوگی۔ اروناچل کے بھی کچھ علاقوں کو چھوڑ پوری ایل او سی پر ہندوستانی فوج کی فوجی پوزیشن مضبوط ہے چین اس سے بھی پڑیشا ہے۔بڑے وسائل والا دیش ہونے کے باوجود اسے عالمی سطح پر زیادہ حمایت نہیں مل رہی ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا کے بعد جاپان میں بھارت کے موقف میں کھڑ ے ہوکر چین کے لئے پریشانی بڑھا دی ہے۔ حکمت عملی سازوں کے مطابق اگر چین بھارت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے ہر ہندوستانی فوجی کے لئے اپنے کم سے کم 9 فوجی جوان لگانے ہوں گے۔ روایتی جنگ قواعد کی مانیں تو حملہ آور فوج کو دشمن کے مقابلہ 9سے12 گنا زیادہ وسائل کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ چین کے پاس وسائل کی بیشک کمی نہ ہو لیکن اس کی تیاری میں اسے لمبا وقت لگے گا۔ جب تک چین 100 فیصدی جیت باآور نہیں ہوگا، حملہ نہیں کرے گا۔ پاکستان اور نارتھ کوریا کے علاوہ کوئی بھی دیش چین کے ساتھ کھڑا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین طرح طرح کی دھمکیاں دے کر دباؤ بنانے کی کوشش میں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟