تین طلاق غیر قانونی و غیر شرعی جو اسلام کا اٹوٹ حصہ نہیں

دیش کی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ میں ایک ساتھ تین طلاق یعنی طلاق بدت کی 1400 سال پرانی رسم کو ختم کردیا۔ پانچ ججوں کی آئینی بینچ کے دو ججوں نے اسے مذہب کا حصہ مانتے ہوئے 6 مہینے کیلئے روک لگادی اور مرکز سے قانون بنانے کوکہا۔ حالانکہ تین جج صاحبان نے اکثریت سے اس روایت کو مذہب کا اٹوٹ حصہ نہیں مانا اور اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فوراً ختم کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کی اکثریت سے آیا یہ فیصلہ تاریخی ہونے کے ساتھ ہی برابری کے لئے جدوجہد کررہی مسلم خواتین کی بڑی جیت ہے اور اس فیصلہ نے دہائیوں سے چلی آرہی اس الجھن کی صورتحال کو دور کرتے ہوئے صاف کردیا ہے کہ منمانے ڈھنگ سے دی گئی طلاق ناقابل تسلیم اور ناجائز اور غیر آئینی ہے۔ اس جیت کا سہرہ اگر کسی کے سر باندھا جاسکتا ہے تو وہ عام مسلم عورتیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مسلم خواتین کی کئی انجمنیں تین طلاق کے قانون کو ختم کرنے کے لئے پچھلے کافی عرصے سے سرگرم تھیں۔ مسلم پرسنل لا ء بورڈ جیسی تنظیم نے تو اسے لیکر ایک ماحول بھی بنایا تھا۔ تین طلاق جیسے اشو کو قومی بحث کا موضوع بنانے کا سہرہ بھی کچھ حد تک ان انجمنوں کو دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس جیت کا کریڈٹ ان خواتین کو ہی ملے گا جنہوں نے چپ چاپ اس لڑائی کو لڑا، بغیر کسی تنظیم سے وابستہ ہوئے ،بنا کسی تحریک کا حصہ بنے ان میں اتراکھنڈکے علاقہ کاشی پور کی باشندہ سائرہ بانو کا نام سب سے اوپر ہے جنہوں نے اپنی ذاتی پریشانی کو چھلکتے ہوئے دیکھا اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایسی ہی لڑائی عشرت جہاں ، فرح فیض، گل رانی پروین اور آفرین رحمان نے بھی اپنے اپنے طریقے سے لڑی۔ ان کے پیچھے کروڑوں عام مسلم خواتین کی جو خاموش حمایت ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مسلمانوں میں خاص طور پر سنی فرقے کے حنفی مسلک میں تین طلاق کا رواج تھا اور اب بھی ہے۔ حالانکہ طلاق کے دیگر طریقے بھی رائج ہیں لیکن تین طلاق میں خواتین کی پوزیشن کے پیش نظر سپریم کورٹ نے اسے آئین کے دائرے میں تولا۔ ساتھ ہی تین طلاق کو اسلامی قانون کے خلاف بتانا اور اکثریت کے فیصلے میں جسٹس جوزف نے کہا کہ میں چیف جسٹس کے اس نظریئے سے متفق ہونے میں بہت مشکل محسوس کررہا ہوں کہ تین طلاق کے رواج پر بلا تاخیر مذہبی شکل میں غور کرنا چاہئے اور یہ ان کے پرسنل لاء قانون کا حصہ ہے۔ جسٹس کورین کے نظریئے سے جسٹس للت نے اتفاق جتایا جو اکثریت کے فیصلہ کا حصہ تھے۔ مقدس قرآن کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا کہ وہ یکدم صاف ہیں اور غیر جواز ہیں۔ جہاں تک طلاق کا تعلق ہے مقدس قرآن نے پاکیزگی اور استحکام کا کریڈٹ شادی کو دیا ہے۔ اکثریت کے فیصلہ میں کہا گیا کہ حالانکہ زیادہ تر ناگزیں حالات میں طلاق کی اجازت ہے لیکن طلاق کی آخری شکل میں حاصل کرنے سے پہلے صلاح کی ایک اور کوشش ہو اور اگر یہ کامیاب ہوگئی تو اسے منسوخ کرنا قرآن کا ضروری قدم ہے۔ تین طلاق معاملہ میں یہ قدم غلط ہے اس لئے تین طلاق مقدس قرآن کے بنیادی اصول کے خلاف ہے اور نتیجتاً یہ شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تین طلاق کی حمایت کرنے والے مولوی اور مسلم انجمنیں اکثر شریعت کا حوالہ دیتی رہی ہیں لیکن اس فیصلے کے پس منظر میں انہیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جو سماج اپنی برائیوں کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتاوہ پچھڑتا چلا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معمولی باتوں پر آپا کھوکر ٹیلی فون سے لیکر اسکوائپ اور واٹس اپ تک کے ذریعے عورتوں کو طلاق دینے کے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں۔ منمانے طریقے سے دی جانے والی طلاق متاثرہ عورت کی ذہنی ، اقتصادی اور سماجی زیادتی کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ اس کے بعد اکثر ایسی خواتین کے لئے نہ تو گھر میں جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی سماج میں۔ یہ سسٹم پوری طرح سے خواتین کے خلاف ہے جس میں ان کا موقف سننے جانے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ پھر یہاں سے نکاح حلالہ جیسی اذیت کا دور بھی شروع ہوتا ہے، امید کی جانی چاہئے کہ سپریم کورٹ اس پر بھی جلد فیصلہ کرے گا۔ تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسلم سماج کا ایک طبقہ بھلے ہی اسے شریعت میں دخل اندازی بتا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے 20 مسلم ممالک ایسے ہیں جنہوں نے شریعت کو کنارے کرتے ہوئے تین طلاق کو کافی پہلے ہی ختم کردیا تھا۔ پاکستان و بنگلہ دیش دونوں ہی اسلامی ملک ہیں ، دونوں دیش سنی مسلمان اکثریت ملک ہیں یہاں کہ فیملی لا آرڈیننس 1961 میں تین طلاق کو ممنوع کیا گیا ہے۔ مصر کے لا آف پرسنل اسٹیٹس 1929 میں سال1985 میں ترمیم کر چار دفعات میں طلاق کی تشریح کی گئی جس کے مطابق تین طلاق پوری طرح سے ممنوع ہے۔ شیعہ اکثریتی ایران سرکاری طور پر اسلامی ملک ہے یہاں کے کوڈ آف پرسنل اسٹیٹس 1959 کو سال1987 میں بدل کر تین طلاق کو ممنوع کیا گیا۔ جارڈن، کویت، لیبیا، شام، تیونس، متحدہ ارب عمارات، یمن، سری لنکا ،اجزائر میں بھی تین طلاق غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا ، ملیشیا، فلپین ولبنان ، مراقش، سوڈان وغیرہ میں بھی تین طلاق پر پابندی ہے۔ ان میں وہ ملک بھی شامل ہیں جنہیں ہم اکثرت کٹر مذہبی دیش مانتے ہیں لیکن بھارت میں اگر یہ سب چلتا رہا تو اس کا قصوروار ہم کچھ حد تک سیاست کو بھی ٹھہرا سکتے ہیں۔ کچھ سماجی پیچیدگی کو بھی اور کچھ ان لوگوں کو بھی جنہیں اس لعنت کے ٹوٹنے سے ڈر لگتا ہے۔ ادھر سرکار نے کہا ہے کہ تین طلاق پر کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا حکومت اس مسئلہ پر تعمیرانا ومصالحانہ طریقے سے غور کرے گی اور پہلی ہی نظر میں اس فیصلے کو پڑھنے سے صاف ہوتا ہے کہ (پانچ نفری بنچ میں ) اکثریت نے اسے غیر آئینی اور ناجائز بتایا ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس فیصلہ کو ان لوگوں کے لئے بڑی جیت قراردیا جن کا ماننا ہے کہ پرسنل لاء قانون ترقی پسندانہ ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فیصلہ اب دیش کا قانون ہے۔ جیٹلی نے یہ بھی کہا کہ اسلامی دنیا کے کئی حصوں میں تین طلاق کی رسم کو خارج کردیا گیا۔ آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ بھی جانتا ہے کہ وہ آئینی بنیاد پر تین طلاق کو اب واجب نہیں ٹھہرا سکتا اس لئے اس نے مسلم خواتین کے مفادات کا خیال رکھنے کے لئے نکاح نامے میں کچھ نہیں باتیں جوڑنے کی پیشکش کی تھی لیکن عدالت نے اس طرح کی کنٹروورسی میں پڑنے کے بجائے آئین کی روح کی آواز سنی اور اس فیصلہ سے بورڈ کو کچھ سبق لینا چاہئے، سمجھنا چاہئے کہ آئین بالاتر ہے، امید کی جانی چاہئے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مسلم سماج میں ایک نئی بیداری کا سبب بنے گا۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جب تک یہ مولوی نہیں مانتے ’طلاق طلاق طلاق‘ جاری رہنے کا امکان ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟