نجی اسکولوں کی فیس بڑھانے کی نہ تو مجبوری ہے اور نہ ہی کوئی تُک

راجدھانی دہلی میں پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کے اشو پر اسکول انتظامیہ اور دہلی سرکار آمنے سامنے ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں فیس اضافہ کے معاملے میں دہلی حکومت نے اسٹینڈ لے لیا ہے۔ وزیراعلی اروند کیجریوال نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ حکومت کا نجی اسکولوں کا زبردستی ایکوائر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ لیکن انہیں زیادہ وصولی گئی فیس والدین کو واپس کرنی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے حکومت راجدھانی کے سبھی پرائیویٹ اسکولوں کا کھاتہ چیک کرے گی۔ سرکار کی کوشش یہ پتہ کرنے کی ہوگی کہ عدالت کے حکم پر اسکولوں نے والدین کو فیس لوٹائی ہے یا نہیں۔ جمعہ کے روز نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے کہا کہ اسکولوں کے خلاف آنے والی شکایتوں کو سرکار سنجیدگی سے لے رہی ہے۔جلد ہی اسکولوں کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔ وزیر اعلی کیجریوال نے کہا کہ ان اسکولوں نے چھٹے پے کمیشن کی سفارشوں کو لاگو کرنے کے لئے فیس بڑھائی ہے۔ بعد میں یہ مانا گیا تھا کہ یہ اضافہ جائز نہیں تھا اور ان اسکولوں کو فیس واپس کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے فیس نہیں لوٹائی۔ کیجریوال نے کہا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بتادیں دہلی ہائی کورٹ نے پرائیویٹ اسکولوں کے کھاتوں کی جانچ کے لئے دگل کمیٹی بنائی تھی۔ سال2009ء میں فیس اضافے کے خلاف ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی اس پر 12 اگست 2011 کو ہائی کورٹ نے جسٹس انل دیو کمیٹی بنا کر سبھی پرائیویٹ اسکولوں کی فیس صحیح ہے یا غلط اس کی جانچ کرنے کو کہا تھا۔ سپریم کورٹ نے 2004ء میں ماڈرن اسکول بنام حکومت ہند کے معاملے میں دہلی سرکار کے ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کو سبھی سرکاری و غیر سرکاری زمین پر بنے پرائیویٹ اسکولوں کے کھاتوں کی ہر سال جانچ کرانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ اسکولوں کے خلاف منمانی کرنے کی قانونی لڑائی 20 سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ دہلی پرینٹس فیڈریشن نے 8 ستمبر1997 ء کو ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ ان کی عرضی پر ہائی کورٹ نے اکتوبر 1998 میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسکولوں کے کھاتوں کی جانچ کرنا نہ صرف سرکار کا حق ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے۔ نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے بتایا کہ انل دیو کمیٹی نے 1108 نجی اسکولوں کا اکاؤنٹ چیک کیا تھا ان میں سے 544 اسکولوں نے طے قواعد کی خلاف ورزی کر زیادہ فیس لی تھی۔ کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے فیس لوٹانے کا حکم دیا تھا۔ 544 اسکولوں میں سے 95 الگ الگ کیٹگری کے ہونے کی وجہ سے باہر ہوگئے۔ اس کے بعد بچے449 اسکولوں کو وجہ بتاؤ نوٹس دیا گیا۔ وہیں اروند کیجریوال نے کہا کہ ایک اسکول ایسا ملا جس کے پاس 19 کروڑ روپیہ کا فاضل سرمایہ ہے۔ ایک دوسرے اسکول کے پاس 5 کروڑ روپے کا ملا۔ ایسے میں فیس بڑھانے کی نہ تو کوئی وجہ ہے اور نہ ہی تُک۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟