9 سال جیل میں رہنے کے بعد کرنل پروہت کو ملی ضمانت

مالیگاؤں دھماکہ کے سرخیوں میں چھاپے معاملہ میں ملزم لیفٹیننٹ کرنل پرساد سری کانت پروہت کو سپریم کورٹ سے ضمانت ملنا بڑا واقعہ اس لئے ہے کہ وہ 9 برسوں سے ضمانت کیلئے جدو جہد کررہے تھے لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ انہیں مہاراشٹر دہشت گردی انسداد دستہ نے مبینہ طور پر ہندو آتنک واد کا ماسٹر مائنڈ ثابت کرنے کی پرزور کوشش کی تھی۔مالیگاؤں بلاسٹ میں لیفٹیننٹ کرنل پروہت اور سابق میجر رمیش اپسے ویاس ، سوامی دیانند کی گرفتاری کے بعد سے ہی بھگوا دہشت گرد لفظ رائج ہو گیا۔ مرکز میں اس وقت کی کانگریس سرکار نے ہندووادی تنظیموں پر آتنکی واردات میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس وقت وزیر داخلہ رہے پی چدمبرم نے تو 2016 میں ریاسی پولیس سربراہوں کی میٹنگ میں بھگوا آتنک واد سے ہوشیار رہنے تک کی صلاح دی تھی۔ کانگریس اقتدار سے باہر ہوئی تو اس کے خلاف مخالف آوازیں اٹھنے لگیں۔ یہ ہی نہیں کانگریس نیتا دگوجے سنگھ نے تو ممبئی میں 26 نومبر 2008ء کو آتنکی حملہ میں پولیس افسر ہیمنت کرکرے کی موت کے پیچھے بھی ہندو وادی تنظیموں کی سازش بتاڈالا تھا۔ کیونکہ اے ٹی ایس چیف کے طور پر وہ مالیگاؤں دھماکہ کی جانچ کررہے تھے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہیمنت کرکرے قصاب اینڈ پارٹی کے شکار ہوئے تھے۔ اپریل میں اسی مالیگاؤں بلاسٹ کیس میں سانحہ کی اہم ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکرکو بھی ضمانت مل گئی تھی۔ کرنل پروہت کو مشتروط ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے دئے گئے ریمارکس کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ کسی کی ضمانت کی مانگ صرف اس بنیاد پر خارج نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ ایک فرقہ کے جذبات ملزم کے خلاف ہیں۔ کیا پروہت ابھی تک اسی بنیاد پر ضمانت سے محروم رہے؟ حالانکہ ضمانت ملنا بے قصور ثابت ہونا نہیں ہوتا، لیکن پروہت کی ضمانت پر بمبئی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں جو بحث ہوئی، این آئی اے نے جو دلیلیں دیں و عدالتوں نے جو ریمارکس دئے ہیں ، اس سے فوری طور پر لگتا ہے کہ جیسے ملزمان پر ابھی تک قاعدے سے مقدمہ ہی نہیں چلا ہے۔ این آئی اے کے احتجاج کے باوجود پیر کو بڑی عدالت نے اس سلسلہ میں بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے 45 سالہ پروہت کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس آر کے اگروال و جسٹس اے ایم سپرے کی بنچ نے اپنے حکم میں کہا ضمانت سے صرف اس لئے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک فرقہ کے جذبات ملزم کے خلاف ہیں۔ ممبئی اے ٹی ایس اور این آئی اے کے ذریعے دائر چارج شیٹ میں فرق ہے۔ ٹرائل کی سطح پر دونوں چارج شیٹ کی جانچ کی جائے گی۔ کورٹ کسی ایک چارج شیٹ پر غور نہیں کرسکتی۔ پروہت نے سبھی معاملہ میں ملزم پرگیہ ٹھاکر کو بمبئی ہائی کورٹ میں ضمانت دئے جانے کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی عرضی دائر کی تھی۔ اس معاملہ میں جو تنظیم کٹہرے میں کھڑی ہوئی اور جس کی مدد کے الزام میں سری کانت پروہت گرفتار کیا گیا وہ ابھینو بھارت ہے۔ اس تنظیم کا ساتھ دینے والوں میں ایک دوسرا نام پرگیہ ٹھاکر کا بھی تھا لیکن دھماکہ کرانے کے الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں ضمانت مل گئی۔ ظاہر ہے ا س سے سری کانت پروہت جیسے فوجی اڈوں سے آر ڈی ایکس دھماکو چرا کر پرگیہ ٹھاکر اور ان کے ساتھیوں کو دینے کا الزام اپنے آپ خارج ہوگیا۔ یہ بھی پروہت کے حق میں گیا۔ شروع میں اس معاملہ کی جانچ کرنے والے مہاراشٹر آتنک واد انسداد دستے اور پھر جانچ ہاتھ میں لینے والی قومی ایجنسی کے نتیجے متضاد ہیں۔ مالیگاؤں دھماکہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جس کا پوراسچ ابھی تک نہیں جانتے لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ ابتدا سے ہی اس معاملہ کا سیاسی استعمال ہورہا تھا۔ ایک طرف اس کے لئے بھگوا آتنک واد جیسے لفظ گھڑے گئے تھے تو دوسری طرف جانچ ایجنسی کے بیجا استعمال کی دلیلیں بھی دی گئیں۔ سچ جو بھی کو لیکن دہشت گرد جیسے حساس معاملہ پر اس طرح کی سیاست ہو اس سے محض دہشت گردوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں نہ تو مذہب آنا چاہے نہ ہی سیاست کرنی چاہئے۔ اس کے لئے بنی جانچ ایجنسیوں کو پوری طرح آزادی سے جانچ کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی سے جو بھی دیگر معاملہ ہیں ان میں بھی جانچ اور عدالتی کارروائی کو آگے بڑھانے کا کام ترجیحاتی بنیاد پر ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟