ہماری نوجوان پیڑھی نشہ کی لت میں تباہ ہورہی ہے

یہ انتہائی تشویش کا موضوع ہے کہ نشہ کی لت ہمارے نوجوانوں کو بری طرح سے متاثر کررہی ہے۔ اسکولی بچوں میں نشہ کی اس لت نے نہ صرف ان کا مستقبل خراب کیا ہے بلکہ پورے خاندان پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج 7-8 اور 9 سال کے بچے وائنر سونگھنے والا نشہ کررہے ہیں جو جان لیوا ہے۔ سونگھنے والے نشہ میں پیٹرولیم مصنوعات ہوتی ہے جو دماغ کی پروٹیکٹنگ کوٹنگ کو ختم کرتی ہے۔ اس سے دماغ کے سیلس مرنے لگتے ہیں اور دماغ کی گروتھ روک جاتی ہے۔ نشہ سے ان بچوں کو باہر نکالنے والے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ شروع میں یہ بچے باقی بچوں کی طرح نارمل ہوتے ہیں لیکن کسی چیز کی ٹینشن یا پریشانی انہیں نشہ کرنے کیلئے مجبور کردیتی ہے۔ لت لگنا وہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر راجیش کا کہنا ہے کہ دماغ میں ریوارڈ پاتھوے ہوتا ہے۔ اس سے ڈوپا مائن ریلیز ہوتا ہے جب یہ ریلیز ہوتا ہے تو انسان کو خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی ہو۔ کچھ انسان کو اپنی تعریف سننے میں ڈوپا مائن ریلیز ہوتا ہے۔کچھ میں کھیلنے سے ہوتا ہے تو کچھ میں نشہ لینے سے۔ پھر انسان جب نشہ پر منحصر رہنے لگتا ہے اور نشہ نہیں کرتا تو اس کے برین سے ڈوپا مائن ریلیز نہیں ہوتا اور وہ دکھی رہنے لگتا ہے۔ ایسے میں ان کی صرف ایک ہی چاہت ہوتی ہے کہ اگلا ڈوز کہاں سے لایا جائے، کیا کیا جائے۔ ایک مثال میں شعیب ہوں، جب میں 9سال کا تھا تو مجھے میتھ میں پریشانی آتی تھی،کچھ سمجھ نہیں آتا تھا، گھر میں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ میں پریشان رہنے لگاتھا جب پہلی بار میرے کچھ دوستوں نے مجھے رومال سونگھنے کو دیا تو مجھے اچھا لگا، میری پریشانی دور ہوتی نظر آئی، پھر یہ میری عادت بن گئی۔ یہ عادت لت میں کب بدلی مجھے پتہ نہیں چلا۔ پہلے گھر سے پیسے چراکر نشہ کرتا رہا۔ پھر پیسے نہیں ملتے تو کوڑاتک بینتا تھا اور اسے بیچ کر نشہ کرتا تھا۔ نشہ سے میری زندگی خراب ہوگی۔مجھے نیند نہیں آتی تھی ،بے چینی ہونے لگتی ہے ، میں پریشان ہوجاتا ہوں اور پھر نشہ کے لئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیا ر ہوجاتا ہوں مجھے روزانہ نشہ چاہئے ہوتا ہے، ایسے نہ جانے کتنے بچے اور نوجوان دہلی میں ہیں جو نشہ کی لت کی وجہ سے اپنی زندگی خراب کررہے ہیں۔ نشہ کی لت کا آج مارکیٹ میں کئی سامان دستیاب ہیں۔ سونگھ کر کیا جانے والا نشہ، اس میں کامن ہے گلو،تھنر، ربڑ، آیوڈیکس اور تارپین کا تیل، نیل ریموو ، گم پیسٹ نشہ میں استعمال ہونے والی چیزوں میں آسانی سے 50 روپے تک میں مل جاتے ہیں۔ انجکشن کا بھی استعمال ہورہا ہے جو عام طور پر جانوروں کو لگایا جاتا ہے یہ 35 سے40 روپے میں مل جاتا ہے۔ نیند کی گولی اور پین کلر کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ کئی دواؤں میں افیم ہوتی ہے اور کچھ سرپ میں بھی یہ پایا جاتا ہے، یہ بھی 50 اور 100 روپے میں مل جاتا ہے۔ اسمیک بھی بازار میں آسانی سے مل جاتی ہے۔ یہ کافی مہنگی ہوتی ہے۔ ایک ڈوز پر 400 روپے تک کا خرچ ہے۔ بچے اس خرچ کو اٹھا نہیں پاتے اس کے لئے کرائم پر اتر آتے ہیں۔ گانجا بھی پورے دیش میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس کے لئے ایک ڈوز کی قیمت200 روپے ہے۔براؤن شوگر کا ایک ڈوز 300سے350 روپے میں آتا ہے۔ نشہ کے شکار لوگ روزانہ کم سے کم دو ڈوز استعمال کرتے ہیں۔ بازار میں دواؤں کا کاروبار اس لئے فیل ہورہا ہے کیونکہ اس کے استعمال کرنے والوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ سرکار نے نشہ مکتی کے کئی سینٹرل کھولے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے تو اس کے لئے سامنے آنے والوں کی۔ ماں باپ کے پاس وقت نہیں ہے وہ اپنی زندگی جینا چاہتے ہیں اور بچوں کو اوپر والے کے حوالہ چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی خاندانوں میں ماں باپ دونوں کام کرتے ہیں اور بچے اکیلے ہوتے ہیں یہ سرکار کے لئے تو چنوتی ہے لیکن سماج کیلئے اس سے بڑی چنوتی ہے۔ اگر ہم اپنی نوجوان پیڑھی کو نشہ کی لت سے بچانا ہے تو سبھی سطح پر جنگ کی طرح لڑنا ہوگا۔ محض بھارت ہی نہیں تقریباً ہر دیش اس مسئلہ سے لڑ رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟