بات بات پر آپا کھوتے دہلی کے گاڑی ڈرائیور

بھاگ دوڑ بھری زندگی میں راجدھانی کے لوگ چھوٹی موٹی باتوں پر اپنا آپا کھورہے ہیں۔ کوئی کار۔ اسکوٹی سے ٹکرا جانے پر شارے عام بچوں کے سامنے باپ کو مار دیا جاتا ہے تو کوئی پارکنگ تنازع پر جان لینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ بائک میں کھرونچ لگنے پر دوسری گاڑی والے کو مار مار کر ادھ مرا کردیتے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کار کو چھو جانے پر عام انسان کو اپنی گاڑی سے کچل کر مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جی ہاں یہ ہے راجدھانی کی صورتحال۔ بھارت میں سڑک حادثوں کی وجہ سے ہر 4 منٹ میں 1 شخص کی جان چلی جاتی ہے۔ روڈ ریج کے ساتھ ساتھ سڑک حادثات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سڑک حادثوں سے کافی لوگوں کو بچایا جاسکتا ہے بشرطیکہ سرکارگڈسمریٹن قانون کو بنیادی شکل دے دے۔ پہلے بات روڈ ریج کی کرتے ہیں۔ دیش کی راجدھانی دہلی میں روڈ ریج کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ معمولی بات کو لیکر ہورہے روڈ ریج کے واقعات میں پولیس ملازم سے لیکر عام آدمی بھی اس کے شکار ہورہے ہیں۔ ایسی بھی بات نہیں کہ اس طرح کے واقعات میں گرم مزاج کے عام لوگ ہی روڈ ریج کے شکار ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی پولیس کے ایک اے سی پی رینک کے افسر امت کمار کے ڈرائیور نے ایک بچے کو لودھی روڈ،نظام الدین علاقے میں غلط ڈھنگ سے گاڑی چلانے سے روکا،کے بچے سمیت ان کے ماں باپ نے مار پیٹ کے واقعات کو انجام دیا۔ ان لوگوں نے ذرا بھی نہیں سوچا کہ ایک پولیس افسر کے سامنے لااینڈ آرڈر کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ حقیقت میں اب حالات بگڑ چکے ہیں۔ لوگ اپنے برتاؤ پر کنٹرول نہیں رکھنے کی وجہ سے خود کوتو مشکل میں ڈالتے ہی ہیں بے قصورلوگوں کی جان سے بھی کھیل رہے ہیں۔ مشرقی دہلی کے میوروہار علاقے میں کچھ دن پہلے ایک خاتون صحافی اور اس کے ساتھی کی روڈ ریج میں جم کر پٹائی کردی گئی۔ رات کی شفٹ ختم کرنے کے بعدچنچل اپنے نوئیڈا میں واقع آفس کے ساتھی دلیپ پانڈے کے ساتھ اپنی کار سے لکشمی نگر میں واقع اپنے گھر جا رہی تھی ، جیسے ہی نوئیڈا سے نکل کر ان کی کار دہلی کی سرحد میں پہنچی پیچھے سے ریت کے لدے ڈمپر نے تیزی کے ساتھ ان کی کار کو اوور ٹیک کیا، اس سے ان کی کار حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بال بال بچ گئی۔ اس کے بعد جیسے ہی ان کی کار تھوڑی آگے بڑھی تو غلط سائٹ سے ایک سفید رنگ کی اسکارپیو کار آئی اور ان کی کار کے آگے کھڑی ہوگئی۔ اسکار پیو سے لڑکا نکل کر آیا اور ان سے جھگڑا کرنے لگا، تبھی ریت سے لدے ٹرک کا ڈرائیور بھی وہاں پہنچ گیا، دونوں نے مل کر چنچل اور دلیپ کے ساتھ مار پیٹ شروع کردی۔ پٹائی کی وجہ سے دلیپ کو کافی چوٹیں آئیں۔ سائیکٹریکٹ سائنس سے وابستہ ماہر بڑھتے روڈ ریج کے واقعات کی کچھ وجوہات بتاتے ہیں۔ بڑھتے روڈ ریج کے واقعات کے پیچھے ایک وجہ سے ڈرائیوننگ ویل کے پیچھے بیٹھے ڈرائیوروں کی بڑھتی ٹینشن۔ دنیا بھر میں ہوئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستانی ڈرائیور آسٹریلیا، چین، تھائی لینڈ اور فلپائن جیسے ملکوں کے مقابلے ڈرائیونگ میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اتنا وقت سڑک پر گزرنے سے نہ صرف ٹینشن بڑھنے سے روڈ ریج کا ماحول بنتا ہے بلکہ سڑکوں کی بری حالت اسے اور بڑھا دیتی ہے۔ اس پر کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی گاڑی چلاتے وقت موبائل پر بات کرتے، سیلفی لیتے یا نیٹ سرفنگ کرنے میں اول ہیں۔اسی طرح کے نتیجے ایشیائی فیسیفک خطے میں کار بنانے والی کمپنی فورڈ کے ایک سروے میں سامنے آیا ہے مسلسل ڈرائیونگ کے علاوہ اسٹریس بڑھانے میں ٹریفک جام، موسم، سڑکوں کی حالت، بھیڑ ،شور اور ڈرائیور کی تھکان بھی ذمہ دار ہے۔ یہ سارا ماحول غصے اور جنون کی ایسی ریسیپی تیار کرتا ہے جو انسان کو کچھ بھی کرنے پر آمادہ کردیتی ہے۔ روڈ ریج سے بچنے کیلئے کچھ تجاویز۔ اپنی لائن میں چلیں اور صبر بنائے رکھیں، لیول کراسنگ کا خیال رکھیں، اپنی باری کا انتظار کریں، اپنا ایک منٹ بچانے کیلئے باقیوں کے گھنٹے برباد نہ کریں، روڈ سیفٹی، روڈ ایجوکیشن و روڈ سینس کو اپنایا جائے، 24 گھنٹے میں جب وقت ملے تو تھکان دور کرنے کیلئے اچھے سے ایک گھنٹے سیر سپاٹا، ورزش اور مراقبہ میں دھیان میں دلچسپی کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ عام زندگی میں ضروری عام قواعد کو سمجھیں اور ان کا احترام کریں۔ ہروقت چوکس رہیں، ہر واقعے کو مثبت نظریئے کے ساتھ لیں۔ چاہے غلطی سامنے والے کی ہو لیکن تحمل کا ثبوت دیں اور تنازعوں میں پھنسنے سے بچیں۔ منفی حالات میں تنگ دل ہونے کی مثال پیش نہ کریں۔ دوسروں سے جو آپ توقع کرتے ہیں اسے اپنے برتاؤ میں پہلے سے عمل میں لائیں۔ آپ کو اس کا اچھا اور واجب فائدہ ملے گا۔جب تک گاڑی ڈرائیور چاہے وہ کار ہو یا بائیک ہو چاہے بس یا ٹرک اپنے غصے پر کنٹرول نہیں رکھتے، روڈ ریج پر قابو پانا مشکل ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟