گجندر کی خودکشی نے دکھا دیاکہ کسان کتنا مایوس ہے

دھرنے اور مظاہروں کے لئے دیش بھر میں مشہور جنتا منتر پر عام آدمی پارٹی کی کسان ریلی بدھ کے روز کالا باب لکھ گئی ہے۔ ژالہ باری، بارش سے برباد ہوا ایک کسان ریلی میں اسٹیج سے محض کچھ قدم کے فاصلے پر نیم کے پیڑ پر پھانسی پر لٹک گیا اور اسٹیج پر بیٹھے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال سمیت پارٹی کے دیگر تمام لیڈر اسے دیکھتے رہے۔ تکلیف دہ یہ ہے کہ کسان کی خودکشی کے بعد بھی ریلی جاری رہی، لیڈر تقریر کرتے رہے، کیجریوال بھی تقریر کے دوران کسانوں سے وعدے کرتے رہے لیکن اسے بچانے کیلئے خود اپنا قدم آگے نہیں بڑھایا۔ راجستھان کے دوسہ کا باشدہ گجندر سنگھ کلیانوت(41 سال) کسان ریلی میں شامل ہونے آیا تھا۔ ہزاروں نگاہوں کے آگے ایک بے بس عام آدمی نے پیڑ پر پھندے سے لٹک کر زندگی کو الوداع کہہ دیا۔ اس کی لاچار آنکھیں سامنے چل رہی سیاسی ریلی کو دیکھتی رہیں جہاں عام آدمی پارٹی کے چیف اروند کیجریوال اس حادثے کی ذمہ داری بھی دہلی پولیس اور مودی سرکار پر مڑھتے ہوئے گرج رہے تھے۔ راجستھان کے دوستہ ضلع کا بدقسمت گجندر سنگھ بھی کھیتوں میں اپنی ڈوبی قسمت کا غم سمیٹے دہلی آیا تھا لیکن واپس لوٹا اس کا بے جان جسم جس سے لپٹ کر اس کے تین معصوم بچوں کی آنکھوں کا باندھ ٹوٹ گیا ہوگا۔ پبلک مقام پر ایسا واقعہ چونکانے والا ہے۔ دیش بھر کے کسانوں کے بحران کے نام پر بلائی گئی اس ریلی میں شاید ایک بدقسمت کسان کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔گجندر باقاعدہ اپنے خاتمے کا اعلان کرتا ہوا بھیڑ کے بیچ نیم کے پیڑ پر چڑھا اور سرپر باندھی پگڑی کا پھندہ ڈال کر لٹک گیا لیکن موجود عام آدمی پارٹی کی ریلی کے مزاج پر اس کا کوئی اثر نہیں دکھائی دیا۔ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ گجندر سنگھ کی خودکشی کے بعد بھی عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کی تقریر جاری کیوں رہی؟ یہ تو غیر ذمہ داری اور بے حساسی کی ایک علامت ہے۔ اس بدقسمت شخص کی موت کے بعد عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے جس طرح کے بے تکے بیان دئے اس سے تو یہی لگا کہ وہ بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح سیاسی ہتھکنڈے اپنانے لگی ہے۔ تمام لوگوں کے سامنے خودکشی کا واقعہ جتنادہلانے والا ہے اتنا ہی شرمسار کرنے والا بھی کیونکہ اس کے بہانے سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو کھلنائک ثابت کرنے کے گندے کھیل میں جٹ گئی ہیں۔ کسانوں کی خراب حالت کے لئے کسی نہ کسی سطح پر سبھی پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔ آج ضرورت کسانوں کو یہ بتانے کی نہیں کہ ان کی حالت خراب ہے بلکہ انہیں بھروسہ دلانے کی ہے کہ وہ صبر رکھیں ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ بلا شبہ یہ تب ہوگا جب سیاسی پارٹیاں تو تو میں میں کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر ان اقدامات کے بارے میں سوچیں جن سے کسانوں کو فوری اور ساتھ ہی طویل المدت مدد مل سکے۔ گجندر سنگھ نے اپنی قربانی دے کر ساری دنیا کو دکھا دیا کہ آج بھارت کا کسان کتنا مایوس ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاروں کو کسان مسئلے پر ہنگامی بحث کرنے کے لئے فوری راستہ نکالے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟