مودی جی بیرونی ممالک میں ہندوستان کی ساکھ نہ گرائیں

وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے غیر ملکی دورے کے دوران عالمی برادری کو یہ یقین دہانی کرانا کہ وہ پچھلی حکومتوں کے ذریعے چھوڑی گئی گندگی کی صفائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس سے صاف کرکے ہی رہیں گے۔ کانگریس کو یہ بات بہت ناگوار گزری ہے۔ اپنے غیر ملکی دورہ کے دوران انہوں نے کئی اہم معاہدوں پر دستخط کئے۔ اپنی مقبول تقریروں سے دیش کی شان بڑھائی اور جشن کے ماحول میں تارکین وطن ہندوستانیوں کو خطاب کر ان کی چھاتی چوڑی کی۔ افسوس کے اتنے اچھے کاموں کے علاوہ اس دورہ کے دوران انہوں نے ایک چھوٹا سا ایسا کام کردیا، جس سے دیش کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔ الٹے کچھ نقصان اور تنازعہ ضرور کھڑا ہوگیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے یہ کہا کہ پہلے لوگ بھارت کو ’اسکیم انڈیا‘ کی شکل میں جانتے تھے، لیکن آگے سے وہ ’اسکلڈ انڈیا‘ کی شکل میں جانیں گے۔ اپنی تنقید سے ناراض کانگریس نے جوابی حملہ کیا ہے۔ مودی پر بھڑکی کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ اب جس دیش کے دورہ پر مودی جائیں گے ان کے پیچھے پارٹی اپنے ترجمان یا سینئر لیڈر بھی بھیجے گی جس سے اس کا سخت جواب اسی سرزمیں پردیا جاسکے۔اگر اس طرح کی روایت شروع ہوتی ہے تو اس سے دیش کی ساکھ ملیامیٹ ہوگی۔ مودی نے فرانس، جرمنی اور کینیڈا کے اپنے حالیہ دورہ میں وہاں رہ رہے تارکین وطن ہندوستانیوں کی ایک میٹنگ میں اپنی تقریروں کے دوران کچھ ایسے طنز کئے جو سابقہ یوپی اے سرکار کے خلاف تھے۔ سابق مرکزی وزیر آنند شرما کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے غیر ملکی دوروں کے دوران تارکین وطن ہندوستانیوں کے سامنے کانگریس کے علاوہ سابق یوپی اے سرکار پر کیچڑ اچھالنے کا کام کرکے اپنے عہدے کی ساکھ اور وقار و دیش کا سنمان گھٹایا ہے۔ ایسا کرنے والے وہ پہلے وزیر اعظم ہیں۔ عموماً چناؤ کے وقت اس طرح کے الزامات درالزامات لگائے جاتے ہیں لیکن بیرونی ممالک میں پبلک اسٹیج پر اس طرح کے بیان ٹھیک نہیں ہوتے۔ آنند شرما نے یہ بھی الزام لگایا کہ مودی اپنے دوروں میں سچ نہیں بولتے۔انہوں نے مودی کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا جس میں انہوں نے کہا پچھلے42 سال سے بھارت کا کوئی وزیر اعظم کینیڈا نہیں آیا۔ شرما کا کہنا تھا کہ اس بات کے ثبوت ہیں کہ پانچ سال پہلے ہی وزیر اعظم منموہن سنگھ وہاں گئے تھے۔ سال2010ء میں مسٹر سنگھ کینیڈا کے پی ایم اسٹیفن ہارپر کی دعوت پر گئے تھے۔ اس دوران دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی جانب سے مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔ ہمارا خیال یہ بھی ہے کہ بیرونی ممالک میں بھارت کی ساکھ بڑھانے کی ضرورت ہے نہ کے گھٹانے کی۔ ہمیں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو بیرونی ممالک میں اچھالنا نہیں چاہئے۔ اتنے سارے غیر ملکی سیاستداں بھارت کا دورہ کرتے ہیں، کیا ایک بار بھی ہم نے انہیں دیش کی پچھلی سرکار کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا ہے؟ امریکہ میں جارج ڈبلیو بش جتنا غیر مقبول لیڈر ہیں کوئی اور نہیں ہوا۔ ان کا تو پہلا چناؤ ہی فرضی بتایا گیا تھا، اس کے باوجود براک اوبامہ نے جارج بش کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بیان نہیں دیا۔غیر ملکی سرزمیں پر مودی جی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ وہاں بھاجپا نیتا کی حیثیت سے نہیں گئے بلکہ وہ وہاں دیش کے وزیر اعظم کی حیثیت سے گئے ہیں اور انہیں عہدے کے وقار کا خیال رکھنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟