کیا راہل گاندھی پارٹی کو اس بحران کے دور سے نکال سکتے ہیں

محاسبہ کرنے کیلئے چھٹی پر گئے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی 58 دن کی چھٹی کے بعد جمعرات کو لوٹ آئے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن سے پہلے ہی کانگریس نائب صدر چھٹی لیکر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ صبح11.15 بجے راہل بنکاک سے تھائی ایئر ویز کی فلائٹ لیکر دہلی آئے۔ ایئرپورٹ سے وہ سیدھے سرکاری رہائشگاہ پہنچے جہاں کانگریس صدر سونیا گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی واڈرا پہلے سے ہی موجود تھیں، حالانکہ اس دوران انہوں نے میڈیا سے کوئی بات نہیں کی۔ کافی عرصے سے راہل حمایتی ان کے لوٹنے اور کمان سنبھالنے کا بے صبری سے انتظارکررہے تھے۔لیکن دوسری طرف کانگریس میں ایسے لیڈروں کی تعداد مسلسل بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جن میں سے کچھ اشاروں میں تو کچھ کھل کر راہل کی صلاحیتوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس فہرست میں تازہ نام دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کا جڑ گیا ہے۔ شیلا جی نے راہل گاندھی کی لیڈر شپ پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ سونیا گاندھی کو ہی پارٹی کی قیادت سنبھالے رکھنا چاہئے۔ حال ہی میں پنجاب کے سابق وزیر اعلی کیپٹن امرندر سنگھ نے بھی اس طرح کے الزام لگائے تھے۔ یہ دونوں ہی گاندھی خاندان کے بیحد قریبی مانے جاتے ہیں۔ شیلا دیکشت نے سونیا گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذمہ داریوں سے نہیں بھاگتیں۔ پارٹی اپنے آپ کو اقتدار میں دوبارہ واپسی کے لئے انہی پر منحصر رہ سکتی ہے۔ ان کے بیٹے سابق ایم پی سندیپ دیکشت نے بھی کچھ دن پہلے راہل کے خلاف بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ راہل قابل ہیں لیکن سونیا بیسٹ ہیں۔ شیلا کے الفاظ بھلے ہی نرم گو ہوں لیکن ان کا احساس اتنا ہی تلخ ہے جتنا راجستھان، کرناٹک اور گجرات کے ان کانگریسیوں کا تھا جو لوک سبھا چناؤ کی کراری شکست کے بعد راہل کی لیڈر شپ پر سوال اٹھا کر پارٹی سے باہر کا راستہ دیکھ چکے ہیں۔شیلا کی بات کا بھی لب و لباب یہی ہے کہ جمہوریت میں لیڈر شپ کی کسوٹی چناؤ میں پارٹی کو کامیابی دلانا ہی ہے۔ اس مورچے پر راہل کا اشتراک کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں تاریخی ہار کے صدمے میں مبتلا رہی پارٹی کے لئے یہ ایک ایسا موقعہ تھا جب وہ پارلیمنٹ سے لیکر سڑک تک مودی سرکار کو گھیر سکتی تھی مگر راہل گاندھی کے اچانک پس منظر سے غائب ہوجانے کے سبب پارٹی کی ساری یوجنا پر پانی پھر گیا۔ انہوں نے تحویل اراضی بل پر اپوزیشن کو متحد کیا اور شمالی بھارت میں ربیع کی فصل پر قہر کی شکل میں زالہ باری، آندھی طوفان اور بارش سے متاثرہ ریاستوں کا دورہ کر متاثرہ کسانوں کو تسلی دینے کا کام بھی سونیا گاندھی کو ہی کرنا پڑا۔ ان کے سینئر کانگریسیوں کا طبقہ سونیا کو ہی پارٹی کا صدر بنائے رکھنے کا حامی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں سونیا جیسی سلجھی لیڈر ہی پارٹی کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ راہل میں تجربے کی کمی ہے اور ہجرت کر جانے کی عادت ہے اس لئے ان کے ہاتھوں میں پارٹی کی باگ ڈور سونپنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ فی الحال راہل کے حمایتیوں کی امید یں19 اپریل یعنی آج ہونے والے پارٹی کے پروگرام میں ان کی موجودگی پر ٹکی ہیں۔ مودی کو راہل ٹکر دے پائیں گے اس میں شبہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟