جموں و کشمیرمیں بھاجپا کا تجربہ فیل ہوتا دکھائی دینے لگاہے

دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈر شپ میں جموں و کشمیر میں مفتی محمد سعید کی پارٹی پی ڈی پی کے ساتھ سرکار بنا کر خودکشی کا قدم اٹھایا ہے۔ پی ڈی پی کی حکومت کے آنے سے علیحدگی پسندوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ دیش میں یہ تصور خواب میں بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن جموں وکشمیر کی حکومت میں بھاجپا سانجھے دار بنے گی اور اس کے زمانے میں سرینگر میں کھلے عام پاکستان زندہ باد کے ساتھ وہاں کا جھنڈا بھی لہرایا جائے گا۔ حالانکہ اس کے اشارے تبھی مل گئے تھے جب وزیر اعلی بننے کے بعد مفتی محمد سعید نے پہلا کام پاکستانی آتنکیوں اور علیحدگی پسندوں کی شان میں قصیدہ پڑھنے اور پورے دیش کی فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے دہشت گرد مسرت عالم کو سلاخوں سے آزاد کرنے کا کام کیا تھا۔ قبر میں پاؤں لٹکائے حریت نیتا گیلانی کو جانشین کی سخت ضرورت تھی اور مفتی نے مسرت کا تحفہ سونپ کر یہ کسر پوری کردی۔ پوری دنیا میں متوقع طور پر بھارت اکیلا ایسا دیش ہوگا جو کھلے عام ملک دشمن حرکت کرنے والوں اور بھارت کے خلاف دہشت گردی کی حمایت و پاکستان نواز نعرے لگانے والے لیڈروں کی جماعت کو نہ صرف سکیورٹی فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں پانچ ستارہ ہوٹل کی سہولیات بھی مہیا کراتا ہے۔ حریت کانفرنس میں شامل تنظیموں کے لیڈروں کو بھارت سرکار پچھلی دو دہائی سے بھی زیادہ وقت سے وہ ساری سہولتیں دیتی ہے جو کسی بھی قومی سطح کے حب الوطن نیتا کو فراہم کرائی جاتی ہیں۔ ان علیحدگی پسندوں کے مفتی کے آنے کے بعد حوصلے آسمان چھو رہے ہیں۔ ان پاکستانی پٹھوؤں کو مفتی کے دوہرے چہرے کا بخوبی اندازہ ہے۔ ابھی پچھلے دنوں دختران ملت نام کی علیحدگی پسند تنظیم نے مٹھی بھر عورتوں کو جمع کر اسی طرح سرینگر کو پاکستانی جھنڈے سے ناپاک کیا تھا۔ مفتی اپنے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ بھاجپا کیا کررہی ہے؟ وہ سرکار میں حصے دار تو ہے لیکن لگتا ہے اس سے کچھ بھی نہیں پوچھا جاتا اور مفتی بغیر صلاح مشورہ کئے ایک کے بعد ایک قدم اٹھاتے جارہے ہیں جس سے ان پاکستانی پٹھوؤں کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ جموں خطے میں بھاجپا نمبرون پارٹی ہے لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سب سے زیادہ نظرانداز جموں خطے کو کیا جارہا ہے۔ بھاجپا کو بھی جموں خطے کی کوئی فکر نہیں ۔ وہاں کی عوام نے اس امید سے بھاجپا کو جتایا تھا کہ وہ خطے کی ترقی اور ڈولپمنٹ پر توجہ دے گی لیکن پی ڈی پی کی پچھل پنگو بن کر بھاجپا لیڈر شپ اپنی حمایتیوں کے پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ آج جس طریقے سے جموں و کشمیر میں اتحادی حکومت چل رہی ہے اس سے تو بھاجپا کے تمام حمایتی بہت مایوس ہیں۔ کیا مودی شاہ کی جوڑی نے یہ اتحادی سرکار اس لئے بنائی تھی کہ منظم سازش کے تحت بھیڑ اکھٹی کر دنیا کے سامنے بھارت کے آئین اور سرداری کی دھجیاں اڑائی جائیں؟ بھاجپا مودی سرکار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ اس کے سیاسی استعمال جموں و کشمیر کی ان کامیابیوں کو نہ چھیننا شروع کردیں جو ہمارے جوانوں نے خون بہا کر حاصل کی ہیں۔ مرکزی سرکار کا رول بھی محض ناخوشی کا اظہار کرنے سے ختم نہیں ہوجاتا۔ انہیں عمل میں آتا دیکھنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟