کیا منموہن سنگھ سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے؟

وزیر اعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ حال ہی میں جب گوہاٹی میں راجیہ سبھا کی ممبر شپ کے لئے اپنا پرچہ داخل کررہے تھے تو دہلی میں اسی وقت کانگریس یہ اعلان کررہی تھی کہ اگر عدالت اشونی کمار کی طرح کسی بھی بڑے عہدیدار(وزیر اعظم کا نام لئے بغیر) پر ایسا تلخ تبصرہ کرے گی تو کانگریس اسے عہدے سے ہٹانے میں دیر نہیں لگائے گی۔ آج کل کے چناوی ماحول میں کانگریس کے لئے اپنی ساکھ اور عزت دونوں بیحد اہم بن گئے ہیں۔ کانگریس ترجمان شکیل احمد نے منموہن سنگھ کا نام لئے بغیر کہا کہ عدالت نے اشونی کمار اور بی سی سی آئی پر کوئی فیصلہ نہیں دیاتھا صرف رائے زنی کی تھی لیکن کانگریس نے اس پر سنجیدگی دکھائی۔ اشونی کمار کو وزارت سے ہٹا دیا گیا تاکہ جولائی میں ہونے والی سماعت میں ان کے سبب کوئی غیر ضروری تنازعہ کھڑا نہ ہو اور سی بی آئی کو اور آزادی دینے کے لئے فوری پی چدمبرم کی قیادت میں وزارتی گروپ بنا دیا گیا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر اس وقت کے کوئلہ وزارت دیکھنے والے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے بارے میں سپریم کورٹ کوئی منفی ریمارکس دیتا ہے تو کیا ان کا حشر بھی اشونی کمار جیسا ہوگا؟ کانگریس کے ترجمان کا جواب تھا کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا منتری کیوں نہ ہو پارٹی دوہرے پیمانے نہیں اپنائے گی۔ کانگریس کایہ تبصرہ ایسے وقت آیا ہے جب سیاسی گلیاروں میں کانگریس صدر اور منموہن سنگھ کے درمیان آپسی تلخی کی خبریں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اب کانگریس لیڈر شپ کا بھروسہ منموہن سنگھ پر ویسا نہیں رہا جیسا کے پہلے ہوا کرتا تھا۔ جو فائدہ 2009ء کے لوک سبھا چناؤ میں ان کی صاف ستھری ساکھ کی وجہ سے پارٹی کو ملا تھا وہ اب نہیں ملے گا۔ کانگریس میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو منموہن سنگھ پر تمام گھوٹالوں کا ٹھیکرا پھوڑ دے اور انہیں بلی کا بکرا بنا دے اور انہیں چلتا کردے اور نئے سرے سے کام شروع کرکے جنتا کے درمیان جائے۔ ویسے ایک بڑے کانگریسی لیڈر نے یہ بھی کہا ہے کہ صحت کے نقطہ نظر سے بھی منموہن سنگھ بیحد کمزور ہوگئے ہیں۔ ان کے علاوہ اپنے دونوں چہیتے اشونی کمار اور پون کمار بنسل کو بچانے سے ناراض منموہن سنگھ مایوس ہوگئے ہیں۔ کانگریس سینئر جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ کھلے طور سے کہہ رہے ہیں کہ کانگریس میں اقتدار کے دو مرکز کامیاب نہیں ہورہے ہیں اس لئے نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ منموہن سنگھ کے وزیر اعظم عہدے کے دن گنے چنے رہ گئے ہیں۔ شاید یہ بات خودمنموہن سنگھ بھی سمجھ چکے ہیں۔ ان کی بڑھتی غیر دلچسپی اس طرف ہی اشارہ کرتی ہے۔ پچھلے تین مہینے سے کم سے کم تین بار منموہن سنگھ سرکار کی لیڈرشپ سنبھال پانے میں اپنی معزوری جتا چکے ہیں۔ یوپی اے ۔II بننے کے بعد سے وزیر اعظم جس طرح الگ الگ اسباب کے چلتے الزامات اور تنقیدوں میں گھرتے جارہے ہیں اس سے ان کے دکھی ہونے کو کانگریس کے حکمت عملی ساز اس احساس کو مان رہے ہیں۔ پارٹی کے سامنے منموہن سنگھ کافی کھل کر درخواست کرچکے ہیں کہ وہ راہل گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کیلئے کسی وقت بھی اپنی کرسی چھوڑنے کو تیار ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟