مودی کا دلی کیلئے راستہ اترپردیش سے طے ہوگا

اگر ابھی عام چناؤ ہوں تو یوپی اے سرکار کی ہار طے ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں بھاجپا نیتا نریندر مودی کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی سے کافی آگے ہیں۔ مودی کو 36 فیصدی تو راہل کو12 فیصدی لوگ وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوپی اے کی سرکار آہستہ آہستہ اپنی زمین کھوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے مہنگائی اور کرپشن کا بڑھنا لیکن دونوں اتحاد میں ووٹ فیصد میں بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ سروے کے مطابق 27 فیصدی لوگ این ڈی اے کو ووٹ کریں گے جبکہ یوپی اے کو26 فیصدی ووٹ ملیں گے۔ سروے کرنے والی تنظیم نے نیلسن اور نیوز چینل اے بی پی نیوز کے حالیہ سروے کے مطابق یہ دعوی کیا گیا ہے کہ 21 ریاستوں کی 152 اسمبلی حلقوں میں 33 ہزار لوگوں سے سوال پوچھے گئے۔ یہ سروے یکم مئی سے10 مئی کے درمیان کرایا گیا۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے بھاجپا کی 2014ء لوک سبھا چناؤ کے لئے اپنی گوٹیاں فٹ کرنا شروع کردی ہیں۔ مودی کی ترجیحات صاف ہیں، دہلی کا راستہ،جو اترپردیش سے بن رہا ہے۔ مودی نے اپنے چہیتی امت شاہ کو اترپردیش کے انچارج مقرر کرادیا ہے۔ امت شاہ کو یوپی کا انچارج بنائے جانے پر بھاجپا نیتاؤں نے خوشی ظاہر کی ہے تو کامریڈوں نے کہا کہ بھاجپا اس صوبے کو پھر سے فرقہ وارانہ طاقتوں کے حوالے کرنے جارہی ہے۔ امت شاہ کو انچارج بنائے جانے کا سیاسی پیغام صاف ہے۔ ایک طرف سپا اور بسپا ذات پات کا سمیلن کررہے ہوں تو دوسری طرف بھاجپا مذہبی جگاڑبندی میں جٹ جائے تو آنے والے لوک سبھا چناؤ میں سب سے برا دنگل ہونا طے ہے۔ بھاجپا کے تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ راجناتھ سنگھ کی قیادت میں بھاجپا اترپردیش میں پھر پولارائزیشن کا داؤں کھیلنا چاہتی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت پہلے ورون گاندھی کو آگے کیا گیا پھر گجرات میں نام کما چکے امت شاہ کو انچارج بنا دیا گیا۔ بھاجپا کے ایک سینئر لیڈر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ راجناتھ سنگھ اور مودی کے درمیان جو سیاسی سمجھوتہ ہوا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ مودی کو پتہ ہے کہ بغیر اترپردیش کے دہلی تک کوئی راستہ نہیں جاسکتا اس لئے انہوں نے اترپردیش کی کمان درپردہ طور پر سنبھال لی ہے۔ امت شاہ کے آتے ہی جو پیغام بھاجپا نے دیا ہے اس کا اثر جلد دکھائی دینے لگے گا۔ امت شاہ نے بھاجپا کی تحریک کے تحت 29 مئی کو گرفتاری دینے کے لئے سپا کے تیز طرار لیڈراور پارلیمنٹری وزیر اعظم خاں کے گڑھ رامپور کوچنا ہے۔ شاہ کے اعظم خاں کے آبائی شہر رامپور سے اترپردیش دورے کی شروعات سے یہ پیغام جانا شروع ہوگیا ہے کہ آنے والے لوک سبھا چناؤ میں ذاتوں کا پولارائزیشن ہو سکتا ہے کیونکہ اعظم خاں کا مسلمانوں میں خاصا اثر مانا جاتا ہے جبکہ شاہ کا گجرات دنگوں میں نام ابھر کر آیا تھا۔ حال ہی میں اعظم خاں نے بھاجپا نیتاؤں کو صبر سے کام لینے کی چیتاونی دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا بھاجپا نیتاؤں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ گجرات نہیں بلکہ اترپردیش ہے۔ سپا کے پردھان ملائم سنگھ یادو نے بھی کہا تھا کہ یوپی میں مودی فیکٹر کام نہیں کرے گا کیونکہ یہاں کی عوام باہری لوگوں کو قبول نہیں کرتی۔ بھاجپا نے امت شاہ کو یو پی ریاست کا انچارج بنا کر ایک تیر سے کئی نشانے لگاتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہندوتو کے اشو پر ابھی پارٹی لگی ہوئی ہے۔ اترپردیش کے موجودہ سیاست میں بسپا اور سپا مقابلے کی پارٹیاں ہیں لیکن مذہبی جگت بندی ہوئی تو سپا سے زیادہ نقصان بسپا کو ہوسکتا ہے۔ یوپی پولیس کا بھی خیال ہے کہ مذہبی جگت بندی سے صوبے میں قانون و انتظام پر اثر پڑ سکتا ہے۔ لوک سبھا چناؤ سے پہلے ایودھیا ،فیض آباد سے لیکر پوروانچل تک ٹکراؤ کے حالات بن سکتے ہیں۔ امت شاہ کی سیاست کی شروعات اگر رامپور سے ہورہی ہے تو بھاجپا یا مودی کی سیاست کے اگلے قدم کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟