بہو گھر کی نوکرانی نہیں ہے

جہیز کے معاملوں میں قانون سخت بنانے کے باوجود جہیزی اموات میں کمی نہیں آرہی ہے۔ اس سے شوہر کے گھروالوں پر کبھی کبھی غلط دباؤ بنانے کی خبریں اخباروں میں اکثر پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ ایک بلیک میلنگ کا ہتھیار بن گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے بہوؤں کو سسرال میں شروع سے ہی عزت ملے جس کی وہ حقدار ہیں۔ اگر میاں بیوی میں کسی مسئلے پر سنگین اختلاف ہے جو برسوں سے دور نہیں ہوسکا تو قانون انہیں طلاق کی اجازت دیتا ہے۔اس کا قانونی عمل ہے جسے دونوں کو ماننا پڑے گا لیکن جو بات قابل برداشت نہیں ہے وہ ہے روز روز بہو کو بے عزت کرنا، ٹارچر کرنا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ دیش کی بڑی عدالت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔دیش میں بہوؤں کو جلانے ،ٹاچر کرنے اور خودکشی کرنے پر مجبور کرنے کے واقعات میں اضافے سے فکر مند سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بہو سے نوکرانی نہیں بلکہ گھر کے ایک فرد کی طرح برتاؤ کیا جانا چاہئے اور اسے کسی بھی وقت ازدواجی زندگی سے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔ عدالت نے کہا کہ بہو کا سسرال میں سنمان ہونا چاہئے کیونکہ وہ مہذب سماج کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ جسٹس ایس ۔کے رادھا کرشن اور جسٹس دیپک مشر کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ بہو سے ایک انجانے شخص کی شکل میں بے رخی کی بجائے گرمجوشی اور پیار محبت کے ساتھ گھر کے فرد کی شکل میں برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ وزارت نے کہا کہ بہو سے گھر کی نوکرانی جیسا برتاؤ ہو اس کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔
جج صاحبان نے کہا سسرال میں بہو کی عزت سے شادی کے پاکیزہ رشتے اور مذہب کا وقار بنا رہے گا۔ یہ مہذب سماج کی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آخر تک زندگی کی علامت ہے لیکن کبھی کبھی بہو کے تئیں شوہر سسرال کے گھروالوں کے برتاؤ سے اس عورت کو پرائے پن کا احساس دلاتا ہے۔ بڑی عدالت نے بیوی کو ٹارچر کرنے کے جرم میں شوہر کو پانچ سال کی قید کی سزا سناتے ہوئے یہ ریمارکس دئے ہیں۔ شوہر کی اذیت سے پریشان ہوکر بیوی نے خودکشی کرلی تھی۔ عدالت نے کہا یہ تشویش کا باعث ہے۔ کئی معاملوں میں بہوؤں سے بہت بے رحمی سے برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی جینے کی خواہش مر جاتی ہے ۔ ججوں نے کہا یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ کئی معاملوں میں جہیز کی مانگ اور لالچ کی سبب بہوؤں کو جلادیا جاتا ہے یا پھر جسمانی اذیتوں کے سبب زندگی کی خوشیوں کو ماردیا جاتا ہے۔ کئی بار تو ذیادتیوں کے سبب مایوس ہوکر بہوئیں خودکشی کرلیتی ہیں جو سماج کے لئے شرمندگی کی بات ہے۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟