منموہن ۔لی کیانگ بات چیت کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا!

چین کے نئے وزیر اعظم لی کیانگ پہلی بار غیر ملکی دورہ پر آئے ہیں اور اس کا آغاز انہوں نے بھارت سے کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ چینی وزیر اعظم کا موجودہ دورہ 27 برس پہلے کی اس یاد سے جوڑتے ہیں جب وہ اپنے دیش کے ایک نوجوان نمائندہ وفد کی رہنمائی کرتے ہوئے یہاں آئیت تھے۔ امرپریم کی کہانی سننے والا تاج محل آج بھی انہیں جذبات میں وہاں دعوت دے رہا ہے۔ لگتا ہے کہ چین کے وزیر اعظم لی کیانگ محض بھارت کی نبض ٹٹولنے کے ارادے سے یہاں آئے تھے۔ لی کے دورہ کو ان کا دیش ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کررہا تھا کہ مانو کے وہ رشتوں کی نئی تاریخ بنانے کی تیاری میں ہیں۔ لیکن جب دونوں وزیراعظم دنیا کے سامنے بات چیت کی تفصیل لے کر آئے تو اس میں محض بیان بازی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آیا۔ بیشک چند سمجھوتوں پر دستخط ہوئے اور دنیا کی دو سب سے بڑی آبادیوں کی قیادت دینے والے دونوں سیاستدانوں نے امن اور بھائی چارگی کے راستے ترقی کے وعدے بھی دوہرائے لیکن اس انتہائی اہمیت کی حامل ملاقات کا التوا میں پڑے تنازعوں کے سلسلے میں نتیجہ کیا رہا؟ چینی وزیر اعظم لی کیانگ اور بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان ہوئی چوٹی کانفرنس بہت اہمیت کی حامل ضرور ہے کیونکہ ایک نے اپنے عہد کے آغاز میں اس چوٹی کانفرنس میں حصہ لیا ہے جبکہ دوسرے وزیر اعظم اپنے عہد کے آخری سال میں دونوں فریق دل پر ہاتھ رکھ کر بھلے ہی دعوی کررہے ہیں کہ بات چیت کے دوران سب ٹھیک ٹھاک رہا لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کے لئے یہ مذاکرات کتنے اچھے رہے یہ حقیقت ایک بہت بڑے سوال کو جنم دیتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں دیشوں کے درمیان 8 سمجھوتوں پر دستخط ہوئے اور دعوی کیا گیا کہ چوٹی ملاقات کامیاب رہی لیکن بھارت نے اس بات چیت کے دوران نہ تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں مستقل ممبر شپ کے سلسلے میں چین کا موقف جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی بھارتیہ نیوکلیائی فروغ کے سلسلے میں کوئی یقین دہانی۔ یہ ہی نہیں ہندوستانی فریق نے اس چوٹی بات چیت میں چینی فریق کے سامنے اس تشویش کا اظہار بھی نہیں کیا کہ وہ پاکستان کو جو نیوکلیائی اور فوجی مدد دے رہا ہے اس کا سیدھا حملہ بھارت کے خلاف ہی ہوگا ، اس لئے پاکستان کو فوجی مدد تو سمجھ میں آتی ہے لیکن نیوکلیائی بجلی گھر بنانے میں مدد، آزاد کشمیر میں چینی فوجیوں کی سرگرمیوں پر ایک لفظ نہ کہنا ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔ اس انتہائی اہمیت کی حامل ملاقات لمبے تنازعات کے سلسلے میں نتیجہ کیا رہا؟ کیا ہم چین کو رضامند کر پائے کے سرحدی تنازعے کو مقررہ وقت میں طے کریں۔ اس کا پائیدار حل نکالنے کی سنجیدہ پہل کی جائے؟ کیا ہمارے پڑوسی کو دراندازی کی غلطی سمجھ میں آئی؟ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے تو ضرور کہا کہ اس واقعے سے دونوں دیشوں نے سبق لیا ہے اور دوبارہ سے اس کو دوہرایا نہ جائے۔ نمائندہ سطح پر اس پر بات چیت کے لئے رضامندی بنی ہے لیکن ایسی رضامندی تو پہلے بھی کئی بار ہوچکی ہے اور حل کے طریقے بھی تلاشے گئے تھے پھر وہ کیوں فیل ہوگئے اور نیا طریقہ کامیاب رہے گا اس کی کیا گارنٹی ہے؟ ہر بار کی طرح اس بار بھی چین کی طرف سے سرحدی تنازعے کو ایسا تاریخی مسئلہ بتادیا گیا ہے جس کا حل نکالنا مانو کسی طلسمی قلعہ کو فتح کرنا جیسا پیچیدہ معاملہ ہے۔معاملہ صرف سرحد کا نہیں ہے برہمپتر ندی پر باند بناکر بھارت کے بڑے حصے میں تباہی کا انتظام کررہا ہے۔ ہندوستان باربار چین سے اپنی تشویش کا حل نکالنے کی مانگ کرتا رہا ہے لیکن چین اپنے ارادوں پر اڑیل ہے۔ایک اور دوسرا سنگین معاملہ ہے سرحد پر چین کی حفاظتی تیاریوں کا۔ 
چین ڈیڑھ دہائی سے سرحد پر سڑکیں ، ریل اور ایئر پورٹ کا جال بچھا رہا ہے۔ اپنے فوجیوں اور بھاری ہتھیاروں کو وہ پلک جھپکتے ہی ہماری سرحد تک پہنچا سکتا ہے۔ جب ہم نے جوابی تیاری شروع کی تب وہ آنکھیں گاڑھ کر دیکھ رہا ہے۔ اس سنجیدہ مسئلے پر بھی ہمیں چین سے مناسب جواب کی توقع تھی جو مایوسی میں بدل گئی۔ جہاں تک چینی وزیر اعظم کا سوال ہے انہوں نے بڑی ہوشیاری سے دونوں دیشوں کے درمیان مسئلوں کا تذکرہ بات چیت کے دوران کیا۔ سرحدی تنازعہ بات چیت، ایک دوسرے سے مسلسل رابطے اور مشورے پر زور دیا گیا لیکن چینی فریق نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں چھوڑا اور ہندوستانی فریق پھسڈی کی طرح چین کے ساتھ ’’یس ،نو، ویری گوڈ‘‘ کی رٹ لگاتا رہا۔ یعنی وہی روایت جو گذشتہ مسائل کو لیکر بھارت۔ چین کے ساتھ مقابلہ آراء ہے وہیں کا وہیں ہے۔ بھارت کے چین میں گرفتار دو ہیرا تاجروں کا اشو اٹھایا تک نہیں۔ بھارتیہ ایکسپورٹر چین کی سرزمین پر قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو چین دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری یعنی پیداوار دیش بننے کے لئے بے چین ہے جبکہ دوسری طرف اپنے قومی قانون کو سخت بنائے ہوئے ہے۔ اتنا ہی نہیں چین ایک طرف تو دعوی کرتا ہے کہ اگر بھارت اور چین ایک ساتھ مل جائیں تو دنیا کی30 فیصد آبادی کو متاثر کرسکتے ہیں لیکن اس میں تضاد یہ ہے کہ اپنے دیش میں اس نے جن ہندوستانی سامان پر پابندی لگا رکھی ہے اس میں رتی بھر چھوٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اپنی طرف سے چینی وزیر اعظم نے بڑی ڈپلومیٹک چالاکی سے اصل اشو کو ٹال دیا۔
ہمیں امید تھی کہ چین کی نئی لیڈرشپ بھارت سے رشتے بہتر بنانے میں حوصلہ مند فیصلہ لے گا اور ہمارے جائز مفادات کے تئیں سنجیدگی دکھائے گا۔ تب کیا محض چین کے اقتصادی مفادات لی کے دورہ کا سبب ہیں۔ چین کی اقتصادی ترقی کی رفتار مندی کے اشارے دکھائی دینے لگے ہیں اور وہ شدت سے بڑے بازروں کی تلاش میں ہے اور زور شور سے بھارت کے اندر کاروباری امکانات کو ٹٹول رہا ہے اور ہمارا دوسرا سب سے بڑا کاروباری سانجھیدار بننے میں بھی کامیاب رہا ہے لیکن پچھلے سال کی بہ نسبت یہ سانجھیداری بھی ہچکولے کھا رہی ہے ۔ کیونکہ اس میں بھی تو ملائی چین کے حصے میں جارہی ہے اور بھارت بھاری خسارہ اٹھانے کے لئے مجبور ہے۔ لب و لباب یہ ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورہ بھارت سے شروع کرکے لی کیانگ نے نئی دہلی کو صاف اشارہ دے دیا ہے کہ وہ رشتوں میں بہتری کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں چینی مفادات کو بھارت کسی بھی طرح متاثر کرنے کی کوشش نہ کرے۔ بہرحال اپنا تو خیال ہے چین کے لئے یہ چوٹی مذاکرات بھارت کے فریق کی توقع سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟