آخر کیسے ہوگا طوطا پنجرے سے آزاد؟

سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد آخر کار مرکزی حکومت نے سی بی آئی کو آزادی دینے اور باہری دباؤ سے اسے بچانے والا نیا قانون بنانے کے مقصد سے ایک وزارتی گروپ بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے سربراہ وزیر خزانہ پی چدمبرم ہیں۔ عام طور پر اس طرح کے وزارتی گروپ یا جی او ایم کی تشکیل اس وقت ہوتی ہے جب مان لیا جاتا ہے کہ معاملے کو لمبے وقت تک ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سرکار کو 10 جولائی کو سماعت پر سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے۔ اس سے پہلے اس قانون کا مسودہ عدالت میں پہنچ جانا چاہئے لہٰذا ڈیڑھ مہینے میں تصویر صاف ہوجائے گی کے مسودے میں کیا کیا نقطے شامل کئے جاتے ہیں۔ دیش کی سپریم ایجنسی کے سیاسی بیجا استعمال کی کہانی لمبی ہے۔ یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ جو پارٹی مرکز میں برسر اقتدار ہوتی ہے وہ اپنے لوگوں کوبچانے اور اپنے سیاسی حریفوں کو پھنسانے کے لئے سی بی آئی کا استعمال کرنے سے باز نہیں آتی لیکن جیسا پچھلے دنوں واقعہ دیکھنے کو ملا اس سے یوپی اے ۔II سرکار نے تو ساری حدیں پارکردیں۔ یہاں تک کہ ایجنسی سے سپریم کورٹ تک میں جھوٹا حلف نامہ داخل کرادیا گیا۔ اب یہ گروپ آف منسٹرس کیا کرتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ سوال ہے کہ اس ایجنسی سے لوک پال بل میں شامل کی گئی نکات کو اب چھوڑدیا جائے گا؟ یا جو بھی لوک پال کی نکات پر شامل مشتمل بل پارلیمنٹ میں پاس کرانے کی تیاری کا حوالہ دیا جائے گا؟ یا کچھ ملا جلا روپ سامنے آئے گا؟ سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو سیاسی دخل سے بچانے کے لئے موثر قانون بنانے کے لئے ایک طرح سے کہا ہے تو کیا پنجرے میں بند طوطے کی آزادی کے لئے الگ سے کارگر قانون بن پائے گا؟ جی او ایم میں چدمبرم چیئرمین ہیں۔ کمیٹی میں دیگر ممبران ہیں، وزیر خارجہ سلمان خورشید، وزیر مواصلات کپل سبل، وزیر داخلہ سشیل کمار شندے ، پی ایم او میں وزیر مملکت نارائن سوامی اور سی بی آئی کے ڈائریکٹر اس گروپ میں خصوصی مدعو ممبر بنائے گئے ہیں۔ سی بی آئی چیف رنجیت سنہا نے ایک ہندی اخبار کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ مرکزی ایجنسی کو آزاد کہنا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ سی بی آئی سرکاری مشینری کی گرفت میں ہے۔ سنہا سی بی آئی کے پہلے ایسے ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے اتنی بیباکی سے اس سچائی کو قبول کیا ہے۔ سنہا اس دن کا بیتابی سے انتظار کررہے ہیں جب 2010ء سے دھول کھا رہا سی بی آئی ایکٹ بڑی ترامیم کے ساتھ قانون کی شکل اختیار کرے گا۔ اس سہولت پر ایجنسی کو آزادبنانے کے کئی بڑے فیصلے لئے گئے ہیں۔ رنجیت سنہا کی مانیں تو سی بی آئی کو پوری طرح کھلا چھوڑنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے بھلے ہی سی بی آئی کو پوری آزاد یا مختار بنانے کی کوشش میں ہے۔ سی بی آئی کے لوگ مکمل آزادی ملنے پر اس کا بیجا استعمال شروع کردیں گے۔ اس خطرے کو دور کرنے کے لئے سنہا نے اعلی افسران سے قدم تجویز کرنے کو کہا ہے۔ ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی نے پورے معاملے کو دھول جھونکنے والا بتایا ہے۔ بی جے پی نے کہا جب اس معاملے میں پہلے ہی سلیکٹ کمیٹی اپنی سفارشیں دے چکی ہے تو ایسے میں جی او ایم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ سی بی آئی کو آزاد کرنے کے معاملے میں لوک پال بل کے دوران کافی بحث ہوچکی ہے۔ اس معاملے میں پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی نے جو بھی سفارشیں دی ہیں انہیں کیبنٹ بھی منظور کرچکی ہے۔ سوال سرکار کی نیت کا ہے جی او ایم پتہ نہیں کیا نئی سفارشیں دے گا؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اب جنتا بھی چاہتی ہے کہ سی بی آئی آزاد ہو اور سپریم کورٹ نے بھی سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے تو ایسا لگتا ہے سی بی آئی کی آزادی کے لئے قانون بنانے سے سرکار نہیں بچ سکتی۔ دیر سویر اسے کچھ ٹھوس قدم اٹھانے ہی پڑیں گے۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ سی بی آئی اقتصادی نقطہ نظر سے بھی منحصر نہ رہے۔وہ اپنے یہاں آئی پی ایس افسروں کی تقرری کے لئے وزارت داخلہ پر منحصر ہے۔ اپنے حکام کو ٹریننگ کے لئے وزارت پرسنل پر جانچ اور مقدمے اور دیگر خرچوں کے لئے وہ وزارت مالیات پر منحصر رہے گی۔ مقدمے کی پیروی کے لئے خصوصی وکیل مقرر کرنا وزارت قانون کا کام ہے۔ ملزم اگر اعلی افسر تھا یا رسوخ دار سیاسی لیڈر ہو تو جانچ شروع کرنے اور مقدمہ چلانے کے لئے سرکار کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ کچھ معاملوں میں یہ انتظار اتنا لمبا ہوتا ہے اور زیادہ تر میں منظوری نہیں مل پاتی۔ سی بی آئی میں سبھی زمرے میں بہت سارے عہدے خالی ہیں۔ان کو نہ بھرنے کے سبب سی بی آئی کے کام پر برا اثر پڑرہا ہے۔ آنے والے قانون میں امید کرتے ہیں ان آسامیوں پر دھیان رکھتے ہوئے ایسی سفارشیں ہونی چاہئیں جن سے سی بی آئی کو ان پر انحصار سے نجات مل سکے۔ اگر ایسا قانون بنتا ہے تو یہ ہمارے جمہوری عمل کی بڑی جیت ہوگی۔ سرکار سے کہیں زیادہ امیدیں ہمیں سپریم کورٹ سے ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟