ونود رائے نے ٹی این سیشن کی یاد تازہ کردی!

کمپٹرولرآڈیٹر جنرل (کیگ) کے عہدے پر ساڑھے پانچ سال فائض رہنے کے بعد ونود رائے بدھ کے روز ریٹائر ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ نئے کیگ ششی کانت شرما نے ذمہ دار سنبھال لی۔ شری ونود رائے کی میعاد کچھ کچھ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی میعاد کی یاد دلاتی ہے۔انہوں نے چناؤ کمیشن کو طاقتور بنانے میں تاریخی کردار نبھایاتھا تو کرپشن کے خلاف سول سوسائٹی کے سرگرم ہونے کے اس دور میں ونود رائے نے کیگ کو ایک شفاف اور ذمہ دار ادارہ بنانے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی اور ثابت کردیا کہ کیگ ایک سرکاری پچھل پنگو ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی کیگ سرکاری خرچ کا آڈٹ کرنے والا ادارہ ہے۔ ادارہ ہی نہیں بلکہ سرکاری پیسے کے بیجا استعمال کے بارے میں دیش کو بتانے کا اختیار جو اسے آئین نے دیا ہے اس کو پورا کیا ہے تبھی تو کیگ کی اب تک کی تاریخ میں یہ پہلی بار تھا جب ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ کو لیکر کول بلاک الاٹمنٹ جیسے کئی معاملوں میں اس کی ابتدائی رپورٹوں نے نہ صرف سرکار کے کرپشن کی پول کھولی بلکہ کئی وزرا ء کو جانا بھی پڑا۔ دیش میں اس وقت جمہوریت کے آئین سازیہ ستون اور آئینی اداروں پر بیٹھے لوگوں اور ان کے دائرہ اختیارات کو لیکر وسیع طور پر غور و خوض جاری ہے۔ کولگیٹ کی جانچ میں سرکاری مداخلت کو لیکر سامنے آئی حقیقت اس کی بنیاد بنے۔ اسی درمیان کینتھرن ویدانتا معاہدے پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ذریعے رائے زنی کی گئی ہے کے کسی موضوع پر کیگ کی رپورٹ آخری سچائی نہیں ہے۔ حالانکہ متعلقہ بینچ نے یہ بھی کہا کہ کیگ کی رپورٹ کو درکنار بھی نہیں کیا جاسکتا یہ ایک حساب کتاب رکھنے والی کمیٹی کے اوپر ہے کہ وہ کیگ کے اعتراضات کو قبول کرے یا خارج کرے۔
غور طلب ہے کہ ونود رائے حال ہی میں یوپی اے سرکار کے ذریعے بار بار نشانے پر لئے جاتے رہے ہیں ،خاص کر راجہ معامیل میں۔ اور کوئلہ الاٹمنٹ میں بھاری بھرکم نقصان کے بارے میں کیگ کے اعدادو شمار پر حکمراں فریق کو ہمیشہ اعتراض رہا ہے۔ کبھی کیگ کوصفر بڑھانے کا مہرہ بتایا گیا تو کبھی اس کا موازنہ ایک منیم سے کیا گیا۔ ایسے میں پورا اندیشہ ہے کہ سرکاری فریق کے وکیلوں کے ذریعے بڑی عدالت کے تازہ ریمارکس کے چنندہ حصے کا استعمال کیگ کے بھروسے کو کم کرنے کے لئے کیا جائے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ کیگ کے ذریعے جس کسی معاملے میں بھی نقصان کے اعدادو شمار دئے گئے ہیں اس میں ترمیم اور اصلاح کی گنجائش کو بھی ہمیشہ پیش کیا گیا ہے۔ بہرحال پہلے تین سے چار سال میں جاری ہونے والی کیگ رپورٹ ونود رائے کے وقت میں صرف پانچ سے چھ مہینے میں آنے لگی بلکہ انہیں قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث بنایا گیا ۔ تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ سرکاری پیسے کا خرچ کس طرح ہورہا ہے۔ سرکاری پیسے کے بیجا استعمال کو سامنے لانے کے لئے ان رپورٹوں میں تخمینہ کے نظریئے کو پہلی بار شامل کیا گیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ کیگ کے کام کے کلچر میں آئی تبدیلی کے سبب پہلی بار اسے اقوام متحدہ کے کئی اداروں کا آڈٹ کرنے کا موقعہ ملا۔ ونود رائے نے اس ادارے کو جس اونچائی پر چھوڑا ہے ششی کانت شرما کو نہ صرف اس اونچائی کو برقرار رکھنا ہوگا بلکہ اس سے اوپر لے جانا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟