لیاقت شاہ کو ضمانت ملنا تفتیشی ایجنسیوں کے منہ پر چپت

حزب المجاہدین کے مشتبہ دہشت گرد لیاقت شاہ کو فدائین آتنکی بنا کر وا ہ واہی لوٹنے والی دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ اس نے اس کے خلاف ہولی کے موقعے پر دہلی میں بم دھماکوں کی سازش تیار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ضلع سیشن جج آئی ایس مہتہ نے لیاقت کو ضمانت دے دی ہے۔ قومی سراغ رساں ایجنسی کی خصوصی عدالت نے این آئی اے اور دہلی پولیس کے بارے میں کہا کہ وہ لیاقت کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے وہ دہلی میں حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ جج موصوفہ نے 20 ہزار روپے کے ذاتی مچلکہ اور اتنی ہی رقم کی گارنٹی دینے پر لیاقت کو ضمانت پر چھوڑنے کے احکامات دئے۔ حالانکہ اس کی ضمانت پرکئی کئی شرطیں لگائی گئی ہیں۔ اسے دیش نہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیاقت کے ذریعے دی گئی معلومات کی بنیاد پر جامعہ مسجد علاقے میں ایک گیسٹ ہاؤس سے گذشتہ 21 مارچ کو ہتھیاراور گولہ بارود برآمد کئے جانے کے دہلی پولیس کے دعوے پر عدالت نے کہا کہ یہ کام ملزم کی غیر موجودگی میں کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے این آئی اے نے لیاقت کی ضمانت عرضی کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ابھی معاملے کی جانچ جاری ہے۔اس کی ٹیلیفون ریکارڈ کی جانچ گواہوں سے پوچھ تاچھ اور معاملے سے جڑے کئی معاملوں کی کڑیوں کو ملانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر کورٹ نے ان دلیلوں کو نامنظور کردیا۔ وہیں جموں و کشمیر پولیس نے بھی دعوی کیا تھا لیاقت خود سپردگی کرنے کے لئے یہاں آرہا تھا۔ اس سلسلے میں اس کے رشتے داروں نے کچھ وقت پہلے ہی درخواست بھی دی تھی۔ رشتے داروں کا الزامتھا کہ دہلی پولیس نے واہ واہی لوٹنے کے لئے لیاقت کو بلی کا بکرا بنادیا۔45 سالہ لیاقت کو دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے اس کے خاندان کے ساتھ 29 مارچ کو گورکھپور میں ہند۔ نیپال سرحد کو پار کرنے کے دوران گرفتار کیا تھا۔ عدالت نے 9 صفحات کے اپنے حکم میں کہاکہ این آئی اے نے خود کہا تھا کہ مبینہ سازش میں لیاقت کا تعلق جوڑنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور خود ساختہ برآمدگی عرضی گذار اور الزامات کی جانچ ملزم کی نشاندہی پر کی گئی تھی تاکہ ثبوت ایکٹ کی دفعہ27 لاگو نہ کی جاسکے۔ بچاؤ وکیل کے مطابق گیسٹ ہاؤس میں وہ کمرہ مبینہ طور پر پاکستان میں بیٹھے آقا کی طرف سے سندیش آنے پر روشنے میں آیا تھا۔ کیا اس کا مقصد یہ نکالا جائے کہ جو ہتھیار وغیرہ جامعہ مسجد کے اس ہوٹل سے برآمد ہوئے وہ خود پولیس نے یہاں رکھ دئے تھے؟ جامعہ مسجد کے گیس ہاؤس میں جس مشتبہ آتنکی کی تصویر جاری کی گئی تھی وہ بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ جہاں ایسے معاملوں سے پولیس و جانچ ایجنسی کی ساکھ پر سوال اٹھتا ہے ساتھ ساتھ اقلیتی تنظیموں کو بھی یہ کہنے کا موقعہ ملتا ہے کہ جانچ ایجنسیاں خانہ پوری کرنے کے لئے کسی بھی اقلیتی نوجوان کو اٹھا کر اسے زبردستی مبینہ طور پر دہشت گرد بنا دیتی ہیں۔ دہلی پولیس کا بھروسہ ویسے بھی بہت کم ہے۔ اس طرح کے معاملوں سے رہی سہی کثر نکل جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟