کشمیر کے مفتی اعظم کا طالبانی فتوی

پڑوسی ملک افغانستان کا طالبانی اثر اب کشمیر میں بھی دکھائی دینے لگا ہے۔ کشمیر کے مفتی اعظم بشیر الدین نے طالبانی فتوی جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ کھلے عام تیز موسیقی غیر شرعی ہے۔ دراصل کشمیری لڑکیوں نے ایک ’راک بینڈ پرکاش‘ بنایا ہے جس کا مطلب ہے اندھیرے سے اجالے کی جانب۔ لیکن ان کی یہ کوشش دقیانوسی سماج کے لوگوں کے گلے نہیں اترتی۔ پہلے انہیں آن لائن بینڈ بند کرنے کی دھمکی دی گئی اور پھر سوشل سائٹ پر بھدے فقرے درج کئے گئے۔ اس کے بعد ان کے خلاف فتوی جاری کردیا گیا۔ سرینگر کے مفتی اعظم بشیر الدین احمد نے اس بینڈ کے خلاف فتوی جاری کیاکہ کھلے عام سنگیت غیر شرعی ہے اس لئے راک بینڈ میں شامل لڑکیوں کو یہ کام بند کردینا چاہئے۔ مفتی صاحب کے مطابق ہندوستانی سماج میں ساری بری چیزوں کی جڑ سنگیت ہے ۔ ان کا کہنا ہے ہماری لڑکیاں جو سنگیت کی طرف راغب ہورہی ہیں اور موسیقی کو جو بڑھاوا مل رہا ہے اس سے ہمارا دیش ترقی نہیں کرسکتا۔ حالانکہ ریاست کے وزیر اعلی عمر عبداللہ سمیت تمام لوگوں نے راک بینڈ پر پابندی لگانے کے لئے جم کر تنقید کی ہے۔ عمرنے تو ان لڑکیوں سے گانا نہ چھوڑنے کے لئے بھی اپیل کردی لیکن کشمیری لڑکیوں کے پہلے راک بینڈ نے موسیقی چھوڑنے کا تکلیف دہ فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ لڑکیاں اپنا بینڈ بند کررہی ہیں۔ بینڈ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے یہ فیصلہ مفتی کے فتوے کے سبب لیا ہے۔ دسویں کلاس کی یہ طالبات موسیقی کی دنیا میں نام کمانا چاہتی تھیں اس لئے انہوں نے راک بینڈ پرگاش بنایا تھا۔ہماری رائے ہے کہ ہنر کبھی بھی فرقہ وارانہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ فتوؤں سے دبایا جاسکتا ہے۔ موسیقی ہر مذہب میں اہمیت کی حامل ہے۔ قومی مہلا کمیشن کی سربراہ ممتا شرما کا کہنا ہے کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد اگر ہم لڑکیوں کو کوئی کام کرنے سے روکتے ہیں تو یہ دوہری ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ ہم لڑکے لڑکیوں کو برابر بھی کہتے ہیں اور لڑکیوں پر پابندی بھی لگاتے ہیں یہ غلط ہے۔ مذہب کے نام پر کچھ بھی کہنے سے مذہب کا کام چلنے والا نہیں۔ آپ کو گانا نہیں اچھا لگتا نہ سنیں لیکن مذہب کے نام پر روکنا کیا صحیح ہے۔ فرقہ وارایت کا زہر بانٹنے والوں نے بینڈ میں شامل لڑکیوں کے والدین تک کو اپنی بیٹیوں پر سخت پہرے بٹھانے کی ہدایت دی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ وادی میں نئی بیداری کی آواز کچھ دقیانوسی لوگوں کے گروپ کے اعتراض کے سبب خاموش ہوجائے گی۔ کیا سماجی کلچر کے خلاف موسیقی کو ایک اوزار کی طرح سے استعمال کرنا تھا۔ تین لڑکیوں کا حوصلہ بیچ میں ہی دم توڑ دے گا؟ کیا دیش میں کلچر بدامنی کا دور اتنا بڑھ گیا ہے کہ فنکاروں کو ان کے فن پر بھی پابندی لگائی جائے گی؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں شبہ ہے کہ ہم گزری صدیوں کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟