کوئلہ الاٹمنٹ منسوخی میں کانگریس کی مشکلیں


کوئلہ بلاک الاٹمنٹ میں بھاری گھوٹالے بازی آہستہ آہستہ سامنے آتی جارہی ہے۔ خود حکومت ہند کے کوئلہ وزارت کے اندازے ہیں کہ ٹنڈر منگائے بغیر الاٹ شدہ60 کوئلہ کھدانوں کی الاٹیوں کو 1.97 لاکھ کروڑ کا فائدہ پہنچا ہے۔ کوئلہ وزارت نے یہ بات ایسے وقت کہی ہے جب حکومت ان کوئلہ کھدان الاٹیوں کے خلاف کارروائی کرنے پر غور کررہی ہے جہاں اب تک پیداوار شروع کرنے کے معاملے میں کافی کم کام ہوا ہے۔ سال1998 سے 2009 تک کے درمیان نجی اور پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کو بغیر بولی کے 60 کوئلہ بلاک الاٹ کردئے گئے۔ ان بلاکوں میں سے 60 کا الاٹمنٹ1998 سے2004 کے درمیان بھاجپا این ڈی اے سرکارکے وقت ہوا تھا۔ بھاجپا کا کہنا تھا سی بی آئی کے ذریعے کئی مقاموں پر جاری چھاپہ ماری سے صاف ہوگیا ہے کوئلہ الاٹمنٹ میں دھاندلی ہوئی ہے جس کے لئے یوپی اے سرکار اور وزیر اعظم منموہن سنگھ براہ راست ذمہ دار ہیں۔ ادھر وزیر اعظم منموہن سنگھ نے صاف کہہ دیا ہے کہ کوئلہ الاٹمنٹ منسوخ نہیں ہوگا۔ بھاجپا۔ لیفٹ پارٹیاں مانگ کررہی ہیں کہ اتنا کچھ ظاہر ہونے پر بھی سرکار الاٹمنٹ کو کیوں نہیں منسوخ کررہی ہے؟ سی بی آئی نے کچھ جگہوں پر چھاپے مارے ہیں اس پر بھی واویلا کھڑا ہوگیا ہے۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ میں سی بی آئی کے چھاپے میں فکسنگ کا الزام لگ رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف مہم چلانے والے اروند کیجریوال نے کہا کہ کمپنیوں کو سی بی آئی چھاپے کے بارے میں پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی۔ انہوں نے ٹیوٹر پر لکھا ہے جن کمپنیوں پر الزام لگے ہیں انہیں دو دن پہلے ہی سی بی آئی چھاپوں کے بارے میں بتادیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ سارے دستاویز ہٹا لیں۔ کیجریوال نے دعوی کیا کہ انہیں ایک ایسے افسر کا میل ملا ہے جس کی کمپنی پر سی بی آئی نے چھاپہ مارا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا سی بی آئی کے چھاپے محض دکھاوا ہیں؟ سی بی آئی نے کیجریوال کے الزامات کی تردید کی ہے۔ سی بی آئی کے ذریعے مارے گئے چھاپوں میں کئی دلچسپ باتیں سامنے آئی ہیں۔ سی بی آئی منگل کو پانچ کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی جس میں جانچ میں سامنے آیا کے ان میں تین کمپنیوں کے نام بھلے ہی الگ ہوں لیکن ان کے مالک ایک ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں شامل پانچوں کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی ہیں ساتھ ہی کوئلہ بلاک پانے کے لئے اپنی اپنی کمپنیوں کی ویلیو سرمائے کے فرضی دستاویز لگا کر کئی گنا دکھا دیا گیا۔ آئرن اینڈ اسٹیل نے بغیر درخواست دئے کول بلاک کے لئے دستاویز بھیج دئے اور کہا کہ ان کے ساتھ 15 کمپنیوں کی سپورٹ حاصل ہے لیکن جانچ میں پتہ چلا کہ 9 کمپنیاں بغیر کسی آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی کے ساتھ کسی طرح کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔حیدر آباد کی نو بھارت پاور پرائیویٹ لمیٹڈ نے اپنی بیلنس شیٹ بھی غلط پیش کی۔ اس کمپنی کے ڈائریکٹر نے اپنی کمپنی کے 85 کروڑ کے شیئر ایس آر گروپ کو بیچ دئے تھے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے زبردست دباؤ کے سبب مرکزی سرکار کے سامنے الاٹ شدہ کول بلاک الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کا بڑا بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ کانگریس کے لئے خطرے کی بات تو یہ ہے کہ اگر وہ الاٹمنٹ منسوخ کرتی ہے تو اس کی ساکھ پر زبردست دھبہ لگے گا۔ ٹوجی الاٹمنٹ منسوخ ہونے کے بعد اگر کوئلہ الاٹمنٹ بھی منسوخ ہوجائے تو سرکار کی بچی کچی ساکھ بھی مٹی میں مل جائے گی جس کے سبب نہ صرف سرکاری سیکٹر میں اس کے لئے سرمایہ کاروں کی قلت پڑ جائے گی بلکہ بازار میں تیزی سے گرواٹ آجائے گی جسے برداشت کرنے کی حالت میں فی الحال یہ سرکار نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں جن کمپنیوں کو یہ کوئلہ بلاک دئے گئے وہ سرکار کی پول کھول سکتی ہیں۔ ایک چونکانے والا پہلو یہ بھی ہے کہ زیادہ تر کمپنیوں نے ان کوئلہ بلاکوں سے کوئلہ نکالنے میں ہونے والے خرچ کا 70 فیصدی پیسہ سرکاری بینکوں سے قرض پر لیا ہواہے۔ ایسے میں بینکوں کا پیسہ ڈوبنے کا خطرہ ہوجائے گا جس سے سرکار پر بیحد دباؤ بڑھ جائے گا۔ ایک اور خطرہ جو سب سے زیادہ اہم اور جائز ہے وہ ہے کانگریس کو ملنے والا چناوی فنڈ۔اپوزیشن پارٹیوں کے مطابق جن کمپنیوں کو کوئلہ خریدنے اور سرکار سے ایک دم مفت میں ملی ہے اس کے عوض میں کانگریس اور متعلقہ وزرا کو موٹا پیسہ ملاہے۔ اب اگر سودا منسوخ ہوتا ہے تو یہ کمپنیاں اپنا چندہ واپس مانگیں گی، نہ دینے پر وزرا کو بدنام کرسکتی ہیں۔ ساتھ ہی کانگریس کو ملنے والے چناوی چندے پر بھی زبردست برا اثر پڑ سکتا ہے۔ بری پھنسی کانگریس ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟