کوئلہ گھوٹالے سے توجہ ہٹانے کی کانگریس کی نئی چال


کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالہ معاملے میں بری طرح گھری یوپی اے سرکار نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اب ایس ٹی۔ ایس سی کی ترقی کا ریزرویشن کارڈ چل دیا ہے۔ منگلوار کی صبح ساڑھے گیارہ بجے منموہن سنگھ سرکار کی مخصوص کیبنٹ کی میٹنگ میں ان طبقات کو سرکاری ملازمتوں میں ترقی کے ریزرویشن دینے سے متعلق بل پر بحث کے لئے یہ کیبنٹ کی میٹنگ بلائی تھی۔ محض15 منٹ میں کیبنٹ کی میٹنگ بل کو منظوری دینے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ کانگریس کے حکمت عملی ساز ہنگامے کی تقریباً بھینٹ چڑھ چکے موجودہ پارلیمنٹ کے سیشن میں ایس ٹی۔ ایس سی کارڈ کو ترپ کے پتے کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بسپا کے دباؤ میں سرکار بل کو راجیہ سبھا میں پیش تو کررہی ہے لیکن اسے پاس کروانے کے تئیں وہ زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ پھر بھی وہ ایوان بالا میں بل لے کر آرہی ہے۔دلیل دی گئی ہے کہ بل سیشن کے ختم ہونے پر بھی وجود میں رہے گا۔ دراصل سرکار گیند اپوزیشن کے پالے میں ڈالنا چاہتی ہے۔ راجیہ سبھا میں بہت حد تک دارومدار بڑی اپوزیشن جماعت بھاجپا پر ٹکا ہے۔ بھاجپا کے دلت ممبران نے اس کی حمایت تو کی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کانگریس کی نیت صحیح نہیں ہے اس لئے اس تجویز کو پارلیمنٹ میں منظوری مل جائے گی اس کی امید کم ہی دکھائی پڑتی ہے۔ کانگریس قیادت والی یوپی اے سرکار کی حمایت کررہی سماج وادی پارٹی ایس سی ۔ایس ٹی ریزرویشن کی مخالفت کررہی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے صاف کہہ دیا ہے سرکار کا وہی موقف ہے جو پارٹی کا ہے۔ اپوزیشن کے تیار نہ ہونے پر حکمراں فریق انہیں دلت مخالف بتا کر گھیرنے کی کوشش کریں گے۔ بل کی حمایت کررہے تمام دلت ایم پی بھی بھاجپا کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ حالانکہ بھاجپا حکمت عملی کے تحت ابھی اس معاملے میں اپنے پتے نہیں کھول رہی ہے۔ ادھر سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر رام گوپال یادو نے کہا کہ ہم سرکار کے فیصلے کی تنقید کرتے ہیں یہ غیر آئینی ہے، اس بارے میں آئینی ترمیم چار بار لائی جاچکی ہے اور ہر بار اسے سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا ہے۔ بھاجپا کے قومی سکریٹری جنرل اشوک پردھان نے کہا بھاجپا نے کبھی دلتوں کے حق کی مخالفت نہیں کی۔ پارٹی نے ہمیشہ سماجی مضبوطی پر زودیا ہے لیکن سوال کانگریس کی نیت کا ہے۔ کوئلہ گھوٹالے میں گھری کانگریس نے پارلیمنٹ میں ریزرویشن سے متعلق اشو کو ایسے وقت لانے کی کوشش کی ہے جب پارلیمنٹ میں پہلے سے ہی اس کی مخالفت جاری ہے۔ کانگریس یوپی اے سرکار نے یہ جانتے ہوئے کہ سپریم کورٹ بغیر آئینی ترمیم کے اسے منظور نہیں کرسکتی پھر بھی اسے لایا گیا ہے تو سرکار کی نیت صاف ہے کہ اسکے سامنے اترپردیش کی مثال بھی ہے۔ 1994ء میں یوپی کی اس وقت کی سرکار نے ایس سی۔ ایس ٹی کے لئے ترقی میں ریزرویشن لاگو کیا۔ 2002ء میں بسپا۔ بھاجپا سرکار نے اسے آگے بڑھا کر دلت طبقے کے حقوق کوتیزی سے ترقی دینے کے نتیجے کو ترجیح فراہم کردی تھی۔ 2005ء میں ملائم سرکار نے اسے نتیجے کا قاعدہ منسوخ کردیا۔ 2007ء میں مایا حکومت نے اس نیت کو پھر سے لاگو کردیا لیکن ہائی کورٹ نے پرموشن پر روک لگادی اور پھر مایا سرکار سپریم کورٹ پہنچی۔ آئین کی دفعہ16(4) اور سیکشن 335 میں کسی تبدیلی کے سپریم کورٹ نے آئین کابنیادی ڈھانچہ قراردیا۔ اس میں کسی بھی طرح کی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے پر پیچ پھنس سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 28 اپریل 2012 کے فیصلے میں پرموشن میں ریزرویشن کے یوپی حکومت کے قانون کو غیر آئینی بتایا۔ عدالت نے کہا کہ آئین میں ریزرویشن کا سسٹم نوکری میں بھرتی کے لئے ہے نہ کے بعد میں ہونے والے پرموشن کے لئے اس لئے جہاں تک منموہن سنگھ سرکار کے کیبنٹ میں پرستاؤ پاس کر راجیہ سبھا میں زبردستی پیش کرنے کا سوال ہے تو یہ محض کوئلہ گھوٹالے سے توجہ ہٹانے کی سیاسی چال ہے جس کا مقصد ایس سی۔ ایس ٹی کا بھلا نہیں بلکہ ووٹ بینک کی سیاست کو دھیان میں رکھ کر ایک ایسی سیاسی چال چلی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟