بین الاقوامی میڈیا میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کی گرتی ساکھ


کسی زمانے میں امریکہ کے سب سے چہیتوں میں وزیر اعظم منموہن سنگھ ہوا کرتے تھے۔ امریکی میڈیامنموہن سنگھ کی تعریف کرتا نہیں تھکتا تھا۔ آج وہی امریکی میڈیا وزیر اعظم منموہن سنگھ کو کرپٹ حکومت کا بے اثر سربراہ بتا رہا ہے۔ امریکہ کے نامور اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ڈاکٹر سنگھ پر زبردست تنقید کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ بیحد کرپٹ حکومت کے سربراہ ہیں۔ اس دور میں اقتصادی اصلاحات کا کام ٹھپ پڑا ہے۔ اس سے دیش میں مسلسل ترقی شرح میں گراوٹ آرہی ہے۔ ایسے میں بھارت کبھی سپر پاور بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ حیرانی کی بات ہے کہ امریکی پالیسیوں کی پیروی کرنے والے منموہن سنگھ کے خلاف امریکی میڈیا نے ایک دم یو ٹرن لے لیا ہے۔ جبکہ امریکہ کے میڈیا ماہرین منموہن سنگھ کو بھارت کو لگاتارکمزوری کی طرف لیجاتا ہوا بتا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ کی نامور میگزین ’’ٹائم‘‘ نے اپنے کور پیج پر منموہن سنگھ کی فوٹو شائع کی تھی اور اس میگزین کی کور اسٹوری میں سرخی دی گئی تھی ’انڈر اچیور لیڈر‘‘ یعنی پھسڈی نیتا۔ ٹائم کی اس کور اسٹوری کو لیکر بھارت میں کافی ہائے توبہ مچی تھی۔ سرکار کے کئی وزرا نے کہا تھا کہ انہیں امریکہ کے میڈیا سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئلہ الاٹمنٹ بلاک معاملے میں بین الاقوامی سطح پر آج بھارت کی کرکری ہورہی ہے۔ اندرونی کھینچ تان کے چلتے بین الاقوامی میڈیا کی نظر میں منموہن سرکار کی ساکھ گرتی جارہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں مرکز کی یوپی اے سرکار کو کرپٹ قراردیتے ہوئے انہیں بے اثر اور بے فیصلہ کن شخصیت قراردیا۔اخبار نے’’مایوس ساکھ کے بن گئے ہیں بھارت کے خاموش وزیر اعظم‘‘ عنوان سے شائع اداریہ میں لکھا ہے کہ منموہن سنگھ بھارت کو جدیدت اور خوشحال و طاقت کے راستے پر لے گئے لیکن تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ کیا خاموش طبیعت کے انسان79 سالہ منموہن سنگھ ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اخبار میں آگے لکھا ہے ہندوستانی معیشت کے معمار منموہن سنگھ نے امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت کے رشتوں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار نبھایا ہے اور وہ دنیا میں عزت کے لائق انسان ہیں لیکن عزت اور نرم گوئی اور ٹیکنوکریٹ و ماہر اقتصادیات کی شکل میں ان کی ساکھ آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہی ہے۔ آج ان کی سرکار کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے اور وہ ایک بے اثر سربراہ کی شکل میں دکھائی پڑ رہے ہیں۔ قابل غور ہے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ کی مشہور میگزین ’’ٹائم‘‘ اور برطانیہ کے اخبار ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ بھی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں۔ برطانوی اخبار نے منموہن سنگھ کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں کانگریس صدر کی کٹھ پتلی تک قراردے دیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کی کرسی پر تو وہ صرف سونیا گاندھی کی وجہ سے بیٹھے ہیں لیکن سچائی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ منموہن سنگھ ایسے وزیر اعظم ہیں جو اپنی سرکار کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ نہیں کرپاتے۔ پورا دیش جانتا ہے کہ سرکار 7ریس کورس سے نہیں بلکہ 10 جن پتھ سے چلائی جارہی ہے۔ یہ باتیں پوری دنیا کو معلوم ہیں۔ ایسے میں کوئی اخبار منموہن سنگھ کو بے اثر وزیر اعظم کہہ لے تو اس میں کسی کو ناگوار لگنے کی کیا بات ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟