میور وہار کانڈ کا ذمہ دار کون ہے؟


دہلی ایک جوالا مکھی کی طرح بن گئی ہے جو کبھی بھی کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ ہم نے اتوار کو دیکھا کہ کس طرح چھوٹی سی چنگاری آگ میں بدل گئی۔ ہرکسی کی زباں پر ایک ہی سوال آخر اچانک کیوں اتنی خوفناک آگ بھڑکی۔ میوروہار فیس۔III میں واقع کھوڑا چوکی کے پاس ایک سپاہی کی جانب سے موٹر سائیکل سوار کو رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن رکنے کے بجائے یہ لڑکا آگے بڑھ گیا۔ الزام یہ ہے کہ اس پولیس والے نے اس کو روک کر اس پر ڈنڈا چلا دیا جس سے نوجوان موٹر سائیکل سمیت گر پڑا اور بری طرح زخمی ہوگیا۔ لیکن واقع کی خبر اس طرح پھیلی کے لڑکے کی موت ہوگئی ہے۔ حالانکہ پولیس کے مطابق بائیک سوار فی الحال ہسپتال میں بھرتی ہے جہاں اس کا علاج چل رہا ہے۔ سینکڑوں لوگوں نے سڑکوں پر اترکر توڑ پھوڑ، پتھراؤ اور آتشزنی کی۔ بلوائیوں پر قابو پانے کی کوشش میں پولیس نے گولی چلا دی۔ جس سے چار لوگوں کو گولی لگی اور وہ زخمی ہوگئے۔ ان میں سے ایک کی لال بہادرشاستری ہسپتال میں موت ہوگئی۔ موت کی اطلاع کے بعد فسادی اور مشتعل ہوگئے۔کھوڑا پولیس چوکی جلا دی، پولیس کی دو موٹر سائیکل ، بس سمیت قریب درجن بھر گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ رات قریب گیارہ بجے فسادیوں نے سی این جی پمپ اور پیٹرول پمپ میں بھی آگ لگانے کی کوشش کی لیکن حالات کو قابو کرنے کے لئے پولیس کو درجنوں آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے۔ دونوں طرف سے گھنٹوں پتھراؤ ہوا اس میں 17 پولیس والے سمیت دو درجن سے زیادہ لوگ بھی زخمی ہوگئے۔ واردات شام ساڑھے سات بجے کی ہے۔ اسکوٹی سوار دو لڑکے کھوڑا چوکی کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ایک نے ہیلمٹ پہن رکھاتھا ،پیچھے بیٹھے لڑکے نے ہیلمٹ نہیں پہن رکھا تھا۔ پکٹ پر تعینات پولیس والوں نے چیکنگ کے لئے اس اسکوٹی سوار کو رکنے کا اشارہ کیا اس پر لڑکے اسکوٹی روک تو دی لیکن جلدی ہونے کی بات کہہ کر بغیر چیکنگ کرائے آگے بڑھنے لگا۔ اس پر سپاہی نے غصے میں آکر ڈنڈا برسا دیا اور دونوں کو گرادیا۔ بس یہیں سے جھگڑا شروع ہوگیا۔ دیر رات پولیس کمشنر لا اینڈ آرڈر دھرمیندر کمار نے بتایا اسکوٹی سوار کا نام قمر الدین ہے۔ وہ کھوڑا سے دہلی کی طرف جارہا تھا اس نے زیادہ شراب پی رکھی تھی۔ پولیس نے جب اسے روکا تو وہ خود ہی گر پڑا اسے علاج کے لئے ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔ اب اس کی حالت ٹھیک ہے۔ واردات کے بعد کھوڑا میں افواہ پھیلا دی گئی کے پولیس کی پٹائی سے قمرالدین کی موت ہوگئی ہے جس وجہ سے وہاں کے لوگوں میں ناراضگی پھیل گئی۔ دراصل اس واردات سے پہلے کھوڑا میں دو فریقوں کے بیچ جھگڑا ہوگیا تھا جس سے بڑی تعداد میں لوگ وہاں اکٹھا تھے۔ اس میں حالات بے قابو ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فوراً یوپی پولیس کے اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر سے بات کی اور کھوڑا میں کرفیو لگانے کی ضرورت بتائی۔ مگر رات ایک بجے تک یوپی پولیس کا کوئی افسر وہاں نہیں پہنچا۔ پولیس نے پیر کو دعوی کیا کہ اب حالت قابو میں ہے۔ اس سلسلے میں غازی پور، میور وہارفیز III- کے تحت آنے والے نیو اشوک نگر تھانے میں دو معاملے درج کئے گئے ہیں۔ معاملے فساد بھڑکانا، آگ لگانا، اقدام قتل وغیرہ کے ہیں۔ 22 لوگوں کو اس سلسلے میں حراست میں لیا گیا ۔ میوروہار فیز۔III دہلی علاقے میں آتا ہے جبکہ کھوڑا کالونی اترپردیش کے غازی آباد ضلع کے تحت آتی ہے۔ دہلی پولیس کا جو کنٹرول عموماً پیش کیا جاتا ہے اس میں پولیس مجبور نظر آتی ہے جس وجہ سے وہ کہیں سختی دکھاتی ہے تو کہیں سیاسی دباؤ ان پر اتنا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی۔ دیش کا سارا سسٹم بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اس کے لئے پوری طرح سے موجودہ پالیٹیکل سسٹم ذمہ دار ہے۔ ووٹ بینک کی پالیسی کے چلتے ایک طبقہ خاص کو اتنی چھوٹ ملی ہے کہ وہ مائی باپوں کی سرپرستی سے پولیس اور انتظامیہ کو کھلے عام اغوا کرلیتی ہیں اور دیش کی مضبوط دہلی پولیس کے جوانوں کو نامرد کی طرح کھڑا دیکھ کر ہنستے ہیں۔ پولیس ملازم چاہتے ہوئے بھی ایکشن کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کے افسر سختی کرنے سے بچتے ہیں۔ میووہار فیز۔III کے بلوے کے پیچھے مہذب سماج کے لوگ نہیں ہیں بلکہ سماج دشمن عناصر ہیں جو طبقہ خاص کے ہونے کے سبب اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ آپ دہلی کی سڑکوں پر دیکھ سکتے ہیں کہ اس طبقہ خاص کے کتنے لوگ بائیک سوار ہیلمٹ پہنتے ہیں اور پولیس کی مجال ہے کہ ان کو روک کر چالان کرسکیں۔ اتوار کی ورادات بھی اسی سبب ہوئی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟