پھانسی کی سزا تو برقرار پر عمل کب ہوگا؟


سپریم کورٹ کی جانب سے ممبئی حملے کے مجرم پاکستانی آتنکی اجمل عامر قصاب کی موت کی سزا برقرار رکھنے کا دیش کے عام شہریوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ بدھوار کو جسٹس آفتاب عالم و جسٹس سی کے پرساد کی بنچ نے قصاب کو بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے اسے موت کی سزا کے علاوہ دوسری سزا نہیں دی جاسکتی۔ قصاب معافی کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ بھارت اور ہندوستانیوں کے خلاف حملے میں شامل تھا اس کا مقصد دیش میں افراتفری کرکے فرقہ وارانہ بھائی چارے کو بگاڑنا تھا۔ ممبئی کے 26 نومبر2008 ء کو ہوئے آتنکی حملے میں 166 لوگ مارے گئے تھے اور 238 زخمی ہوئے جنہوں نے اس دہشت گردی کو دیکھا تھا اور جنہیں انصاف کی کارروائیوں میں تھوڑا بھی عمل تھا وہ تبھی سے مطمئن تھے کہ 9 آتنکوں میں اکیلا زندہ بچا اجمل قصاب سزائے موت سے نہیں بچ سکتا۔ پھر بھی ساری دنیا نے دیکھا ہندوستانی عدلیہ نظام نے قصاب کے معاملے کو پای�ۂ تکمیل تک پہنچانے میں ہماری عدالتوں نے کسی طرح کے شارٹ کٹ یا جانبداری کا سہارا نہیں لیا۔ قصاب کے اس طرح کے الزامات کو مسترد کرتی ہوئی سپریم کورٹ کا تبصرہ بالکل واجب ہے اس سے دنیا میں ہندوستانی انصاف سسٹم کی ساکھ اور دھاک جمی ہے۔ پاکستان پربھارت کے خلاف سازش کی عدالتی مہر لگی ہے۔ اسے فیصلے نے ملک کے شہریوں کو جہاں تسلی ضرور دی ہے وہیں جنتا کے دل میں یہ غلط فہمی بھی برقرار ہے کیا اس سزا پر عمل کرنے کی منموہن سرکار کے پاس قوت ارادی ہے؟ اس سوال کا جواب صرف یوپی اے سرکار کے پاس ہے اور دیش کی یہ بدقسمتی ہے کہ آتنک وادیوں کو سزا دینے کے معاملے میں اس سرکار کا ریکارڈ بہت خراب اور قابل افسوس ہے ۔ اتنے سال گزرجانے کے بعد بھی وہ نہ تو پارلیمنٹ کے مجرم افضل کو پھانسی کی سزا پر عمل کراسکی ہے اور نہ ہی کچھ دیگر آتنک وادیوں کی ایسی سزا کی تعمیل ہوئی۔ اس فیصلے پر تعمیل کرانا اب سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اسے یہ کارروائی یقینی بنانی چاہئے کہ اس طرح دیگر معاملوں میں بھی عمل میں دیری نہ ہو اور تاخیر کی وجہ سے انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ پھانسی کی سزا دلانا اگر ملک میں واجب ہے عدالت معاملوں کی سنجیدگی کی بنیاد پر اسے جاری رکھتی ہے لیکن پھر سرکار کے ایکشن کو میعادی بنانا چاہئے۔ اس سے بالکل شفافیت کے ساتھ نپٹا جانا چاہئے۔ اس سزا پر نظر ثانی یا صدر کی معافی کے حق کے علاوہ محض معاملے میں خانہ پوری رہ جائے۔ پہلوؤں کے حساب سے طے ہونا چاہئے کہ کسی سیاسی اپیل یا تقاضوں کے چلتے نہیں ان آتنکیوں کی نہ تو کوئی ذات ہے اور نہ ہی مذہب۔ اگر سرکار سمجھتی ہے کہ انہیں پھانسی دینے سے کسی طبقہ خاص میں ردعمل ہوگا تو غلط سوچتی ہے۔ سب نے بے قصوروں کو نشانہ بناتے وقت یہ نہیں دیکھا تھا کہ سامنے کھڑے شخص کا مذہب کیا ہے یا ذات کیا ہے؟ افضل کے معاملے بھارت سرکار کی آنا کانی سے اگر دیش دنیا میں کوئی سندیش جارہا ہے تو یہ ہندوستانی مملکت ایک آتنکی کو سزا دینے کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہے۔ دیر سے ہی صحیح جہاں متاثرہ کنبوں میں سرکار کے خلاف ناراضگی بڑھتی جارہی ہے وہیں سکیورٹی فورسز کا بھی حوصلہ ٹوٹتا ہے۔ قصاب کا تو کیس شیشے کی طرح صاف ہے۔ درجنوں لوگوں نے اسے گولیاں برساتے ہوئے دیکھا۔ اس کے خلاف ہر ممکن ثبوت دستیاب ہے اس کے باوجود ہم ساری دنیا کو یہ دکھانے میں لگے ہیں کہ ہماری عدلیہ کارروائی کتنی صاف ہے یہ ڈرامہ کس لئے؟ دنیا کے بہت سے ملک آتنک واد سے متاثر ہیں۔ امریکہ میں فوراً سزا دے دی جاتی ہے یہاں تک کہ پاکستان میں بھی آتنک واد سے متعلق مقدموں کا فیصلہ ایک سال میں پورا کرنے کی سہولت ہے۔ حکومت ہند کو ضرورت پڑے تو قانون میں تھوڑی ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایک یقینی میعاد میں صدر کو اپنا فیصلہ دینا ہوگا۔ آج کی تاریخ میں درجنوں پھانسی کے معاملے راشٹرپتی بھون میں لٹکے پڑے ہیں۔ اگر ان پر سلسلہ وار عمل ہوتا بھی ہے تو افضل گورو اور قصاب کا نمبر بہت دنوں بعد آئے گا؟ لیکن اس کارروائی کو شروع تو کرو۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟