ہلیری کلنٹن کا دورہ پوشیدہ ایجنڈا؟



Published On 10 May 2012
انل نریندر

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا تین روزہ دورۂ ہند کئی معنوں میں اہم ہے۔ عام طور پر امریکہ ایک تیر سے کئی شکار کرتا ہے۔ ہلیری کا مغربی بنگال آنا اور ممتا کو اتنی اہمیت دینا بغیر کسی ٹھوس مقصد کے نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ وزیراعظم منموہن سنگھ کے کہنے پر کولکاتہ آئی تھیں؟ کیونکہ پچھلے کئی دنوں سے ممتا بنرجی مرکز ی سرکار کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ چاہے معاملہ بھارت بنگلہ دیش میں تیستہ آبی معاہدے کا ہو چاہے خوردہ بازار میں براہ راست سرمایہ کاری کا رہا ہو، ممتا اپنے موقف پر اڑی ہوئی ہیں۔ میں نے ان دونوں اشوز کا اس لئے ذکر کیا ہے کیونکہ ہلیری کلنٹن کولکاتہ سیدھے ڈھاکہ سے آئیں۔ بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی کے ساتھ ان کی میٹنگ کو کسی بھی امریکی وزیر خارجہ کی اس طرح کی پہلی کوشش مانا جارہا ہے۔ ہلیری کے اس دورہ سے صاف ہوگیا ہے کہ امریکی حکومت ممتا بنرجی اور ان کی حکومت کو کتنی اہمیت دے رہی ہے۔ اپنے دورہ کے دوسرے دن پیر کے روز ہلیری نے ریاستی سکریٹریٹ رائٹرز بلڈنگ میں ممتا بنرجی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کا انتظار تو مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کو ٹائم میگزین کی جانب سے دنیا کی 100 سب سے زیادہ طاقتور شخصیتوں میں شمار کئے جانے اور امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورہ ہند کا وقت پہلے ہی سے طے تھا۔ ہلیری نے ڈھاکہ کے بعد کولکاتہ آکر جس طرح یہ توقع ظاہر کی کے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان آبی بٹوارے کا اشو سمجھیں۔ اس میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں لیکن یہ قابل ذکر ہے کہ انہوں نے یہ بات کولکاتہ میں کہی ممکن ہے وہ اس سے اچھی طرح واقف ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان آبی بٹوارے اور خاص طور سے تیستہ ندی کا معاملہ تبھی سلجھ سکتا ہے جب ممتا بنرجی مناسب رویہ اپنائیں گی۔ باوجود اس کے انہیں اپنی توجہ کولکاتہ کے بجائے نئی دہلی پر مرکوز کرنی چاہئے تھی۔ انہوں نے نئی دہلی آنے سے پہلے جس طرح سے یہ ظاہر کرنے میں قباحت نہیں کی کے بھارت کو ایران سے دور رہنا چاہئے اس سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ خارجہ پالیسی کے مورچے پر بھارت کے ٹال مٹول کے رویئے کے سبب امریکہ کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔ امریکہ نہ صرف یہ بھی کہہ رہا ہے کہ بھارت ایران سے دور رہے بلکہ اس کے لئے سارے جتن بھی کررہا ہے کے وہ اس سے تیل خریدنا بھی بند کردے۔ جو بات بھارت سرکار کو امریکہ سے واضح کردینی چاہئے وہ ہے اگر بھارت ایران سے تیل خریدنا بند کردے گا تو اپنی ضرورتیں پوری کیسے کرے گا؟ آخر امریکہ کوئی متبادل طریقہ نہیں بتا رہا ہے۔ امریکہ کا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ اس کی نگاہ چاہے ایران پر ہو یا پاکستان پر ہو،اپنے مفادات کے مطابق پالیسیاں بنتی ہیں۔ اسے بھارت کے مفادات کی کر نہیں۔ یہ بات مرکزی سرکار کو بھی سمجھ لینی چاہئے اور دیدی کو بھی۔ ممتا کو ہلیری کے ذریعے اتنا بھاؤ دینے سے اپنا دماغ اور نظریہ خراب نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہلیری انہیں بھاؤ دے رہی ہیں تو اس کے پیچھے امریکی پالیسی ہے ۔
Anil Narendra, Batla House Encounter, Daily Pratap, Mulayam Singh Yadav, Samajwadi Party, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟