غریب بھوکے ہیں، کسان خودکشی کو مجبوراور اناج سڑ رہا ہے



Published On 12 May 2012
انل نریندر
بڑھتی مہنگائی سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے۔ خبر آئی ہے کہ اس سال دیش میں اناج کی ریکارڈ پیداوار 25 کروڑ ٹن ہوئی ہے۔ یہ خبر جتنی راحت دینے والی ہے اتنی ہی راحت سے کہیں زیادہ شرمناک اور جی جلانے والی ہے کیونکہ دیش میں دستیاب اناج گوداموں میں زیادہ سے زیادہ 11 کروڑ ٹن ہی رکھنے کی صلاحیت ہے۔ مرکز اور ریاستی سرکاروں کی سست روی کے سبب کسانوں کو زیادہ اناج پیدا کرنے کی الٹی سزا ملنے کے آثار بنتے دکھائی پڑ رہے ہیں۔ خون پسینہ بہا کر پیدا کیا اناج اب کسان اپنی آنکھوں کے سامنے سڑتے ہوئے دیکھیں گے۔ یہ ہی نہیں ساڑھے آٹھ کروڑ ٹن سے زیادہ ریکارڈ توڑ فصل پیدا ہونے کے بعد بھی کسانوں کی جیب خالی رہے گی اور غریبوں کے پیٹ پہلے کی طرح بھوکے رہیں گے۔چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کی موج آجائے گی کیونکہ کھولے آسمان کے نیچے سڑتا اناج وہ پہلے کر پھینکیں گے اور اس کے بعد چاندی ہوگی شراب بنانے والوں کی کیونکہ کسانوں کے نام پر قسمیں کھانے والی حکومتوں پر اس کی فصل رکھنے کے انتظام نہیں ہے۔ اس کے سبب کئی ٹن گیہوں برباد ہونا طے ہے۔ دیش میں دستیاب گوداموں میں محض11 کروڑ ٹن اناج رکھنے کی سہولت بڑھانے کے لئے کوئی ٹھوس متبادل نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح اناج کے مناسب رکھ رکھاؤ کی کمی میں یہ پھر برباد ہوگا اور پھر کسانوں کو خودکشی کرنے ، بھکمری سے لوگوں کے مرنے کی روزانہ خبریں دیش کے مختلف علاقوں سے آنا شروع ہوجائیں گی۔ بین الاقوامی غذائی پالیسی رکھ رکھاؤ ادارے کے مطابق دنیا کے بھوکے لوگوں میں ہر پانچواں شخص ہندوستانی ہے۔ دیش کی بڑی منڈیوں میں لاکھوں ٹن اناج کھلے آسمان کے نیچے جمع ہوچکا ہے اسے ترپال سے ڈھکنے کی بھی سہولت نہیں ہے۔ اندیشہ ہے کہ مانسون کی پہلی بوچھار کے ساتھ زبردست بربادی کی شروعات ہوجائے گی۔ جن ریاستوں نے جتنا بڑھ چڑھ کر اناج کی پیداوار کی اتنا ہی زیادہ اناج اب سڑے گا۔ریاستی سرکاریں بھی مرکز کے پالے میں گیند ڈال رہی ہیں۔ پنجاب ،ہریانہ اورمدھیہ پردیش کے وزراء اعلی نے پچھلے دنوں وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر زراعت اور وزیر خوراک سے ملاقات کر منڈیوں میں کھلے میں رکھے اناج کو اٹھانے ،گوداموں میں جمع پرانے اناج کو دوسری ریاستوں میں منتقل کرنے کی اپیل کی لیکن مرکز الٹے انہی سے انتظام کرنے کو کہہ رہا ہے۔ لہٰذا جہاں یہ فخر اور تسلی کی بات ہے کہ غذائی پیداوار کے سیکٹر میں ہماری خودکفالت ریکارڈ توڑ کامیابی کا اعدادو شمار درج کرانے جارہی ہے اب یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ریکارڈ پیداوار کو سمیٹنے کے لئے اس کیلئے اسٹور کا مناسب انتظام کرے اور اسے عام آدمی تک پہنچانے کیلئے عوامی تقسیم نظام کو چست درست بنائے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پچھلے سال سپریم کورٹ نے سڑ رہے اناج کو غریبوں میں مفت بانٹنے کی ہدایت بھی دی تھی جس پر کئی طرح کی اگر مگر کرتے ہوئے مرکز نے اسے نظر انداز کردیا۔ سرکار کو عدالت کا یہ حکم پسند نہیں آیا اور اس کو عدلیہ کی نا مناسب مداخلت نظر آئی تھی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Farmers Suicide, Food Security Bill, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟