حج سبسڈی ختم کی جائے ،سپریم کورٹ



Published On 11 May 2012
انل نریندر
سپریم کورٹ نے ایک دوررس فیصلے میں پچھلے 18 سال سے حج سفر کے لئے دی جارہی سبسڈی اگلے10 سال میں پوری طرح سے ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس آفتاب عالم اور رنجنا پرکاش ڈیسائی پر مشتمل بنچ نے قرآن کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ سبسڈی ختم کرنا جائز ہے۔ عدالت نے کہا مذہبی مقامات پر جانے والے لوگوں کو اس طرح کی سبسڈی دینا اقلیتوں کو لبھانے کی مانند ہے۔ حج سفر کے ساتھ بھیجے جانے والے خیرسگالی نمائندہ وفد کو بھی عدالت نے سفر دو ممبروں تک محدود کرنے کو کہا ہے۔ سرکار کے ذریعے حج مسافروں کو طیارے کے کرائے میں دی جانے والی رعایت کو حج سبسڈی کہتے ہیں۔1954ء سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ایسی سہولت دینے والا بھارت دنیا میں واحد ملک ہے۔ اس سبسڈی کے تحت سرکار ہر سال 600 کروڑ روپے عازمین حج پر خرچ کرتی ہے۔ حکومت نے پہلے حج مسافروں کے لئے 12 ہزار روپے کا جہاز کا کرایہ مقرر کیا تھا۔ اسے2009 میں بڑھا کر16 ہزار کردیا گیا۔ باقی لاگت سرکار کے ذریعے خرچ کی جاتی ہے۔ اس سے قریب ہر مسافر کو40 ہزار روپے کی رعایت ملتی ہے۔ 1.70 لاکھ عازمین حج ہر سال حج کے لئے جاتے ہیں۔ ان میں سے 1.25 لاکھ حج کمیٹیوں کے ذریعے چنے جاتے ہیں باقی پرائیویٹ آپریٹروں کے ذریعے سے جاتے ہیں۔ حج کمیٹی کے ذریعے چنے گئے عازمین حج کو ہی سبسڈی دی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ سبسڈی کی رقم کا زیادہ بہتر استعمال مسلم فرقے کی تعلیمی اور سماجی بھلائی کے لئے ہوسکتا ہے۔ ایم آئی ایم کے چیف اسعد الدین اویسی نے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ سبسڈی 10 سال تک نہیں بلکہ فوری ہی ختم کردی جانی چاہئے۔ حج سبسڈی کی شکل میں حج مسافروں کو نہیں بلکہ ایئرانڈیا کو600 کروڑ روپے کی مدد دی جاتی ہے۔ فتحپوری مسجد کے شاہی امام مکرم احمد کا کہنا ہے کہ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اگر دیگر مذاہب کے لوگوں کے مذہبی دوروں میں سبسڈی نہیں ملتی تو ہمیں بھی نہیں ملنی چاہئے۔ بھارت میں سبھی شہری برابر ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اب سرکار بھی متفق لگتی ہے اور اس کی مانیں تو وہ اس سمت میں غور کررہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ سرکار نے پھر اس سمت میں قدم کیوں نہیں اٹھائے اور وہ تب تک جب تک مسلم سماج کے دیگر لیڈر اور عالم دین بھی اس نظریئے کے حمایتی تھے کہ حج سبسڈی صحیح نہیں ہے؟ کچھ علماؤں تو اسے غیر اسلامی مانتے ہیں۔ اب بیشک مرکزی سرکار جو بھی دعوی کرے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ سرکار کو کرنا چاہئے تھا نہ کہ سپریم کورٹ کو لیکن مجبوراً عدالت کو یہ فیصلہ دینا پڑا۔ جب اسے لگا کہ اس سبسڈی کے ذریعے سے سیاسی مفادات کی تکمیل ہورہی ہے۔ یہ سوال اس لئے کیونکہ عدالت نے یہ کہنے میں قباحت نہیں کی کہ اس طرح کی پالیسی اقلیتوں کو لبھانے والی ہے؟ ایک سیکولر نظام میں حکومت کو اپنے برتاؤ سے ایسا احساس نہیں دلانا چاہئے کہ وہ کسی خاص طبقے کے تئیں زیادہ ہی فراخدلی کا ثبوت دے رہی ہے۔ اگر سرکار کو مذہبی اسکیموں میں سبسڈی دینی ہے تو سبھی طبقوں کے لوگوں کو دے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Haj, Minority, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟